تشریح:
1۔ سمر کے معنی چاند کی روشنی ہیں، پھر رات کی گفتگو کو سمر کہا جانے لگا۔ چونکہ اہل عرب دور جاہلیت میں چاند کے طلوع ہونے کے بعد کھلے میدان میں خاندانی مفاخر، قصہ گوئی، اشعار اور بے ہودہ باتوں میں وقت گزارتے تھے، جب چاند غروب ہوجاتا تو گھر واپس آتے۔ ان تمام خرافات کو بھی سمر کہتے ہیں۔ شریعت میں یہ ناجائز اور حرام ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ اگر علمی مشاغل میں رات کا کچھ حصہ گزرجائے تو منع نہیں ہے۔ پہلے باب میں علمی مسائل کا ذکر تھا، اب علمی مناظروں اورچٹکلوں کا بیان ہے، نیز پہلے باب میں سونے کے بعد علمی گفتگو کا اثبات فرمایا تھا اور اس باب میں نماز عشاء کے بعد سونے سے قبل اس کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتاناچاہتے ہیں کہ صلاۃ عشاء کے بعد سمر نہیں ہونا چاہیے، اگر کیا جائے تو علم اور خیر کا سمر ہو، نہ کہ جاہلیت والا سمر کیونکہ اس کی ممانعت ہے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ہمیں خبردار کیا ہے کہ سابقہ امتوں کے مقابلے میں تمہاری عمریں بہت کم ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں۔ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2331) عمروں کے اس فرق کے ساتھ ذمے داری میں بھی بڑا فرق ہے۔ ان کے لیے لمبی عمروں میں کام مختصر ہوتا تھا جبکہ اس امت کی مختصر عمر میں کام بہت طویل ہے۔ اس بنا پر ہمیں اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہونا چاہیے۔ (فتح الباري: 280/1) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت خضر اب زندہ نہیں ہیں، کیونکہ اس حدیث کے مطابق سو سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والا کوئی بھی زندہ نہیں رہا۔ واللہ أعلم۔