تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ضروری نہیں، سنتوں اور فرضوں کے درمیان گفتگو سے بھی فصل کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنے کا مقصد صرف فرض اور سنت میں فصل کرنا ہے، وہ لیٹنے کے علاوہ کسی چیز سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن امام نووی ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے پیش نظر اسے سنت قرار دیا ہے کیونکہ راوئ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ نے سنتوں کی ادائیگی کے بعد مسجد کی طرف چل کر آنے کو کافی نہیں سمجھا جیسا کہ مروان نے کہا تھا بلکہ لیٹنے کی تلقین کی ہے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1281) (2) بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر گھر میں سنت پڑھی جائیں تو لیٹنا چاہیے، مسجد میں لیٹنا درست نہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ مسجد میں لیٹنے والے کو کنکریاں مارتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شیبة) امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر سنت سے فراغت کے بعد لیٹتے تو گفتگو نہ فرماتے اور اگر گفتگو کرتے تو لیٹتے نہیں تھے اور امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اپنی صحیح میں اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے، لیکن امام احمد ؒ نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد پڑھتے، فراغت کے بعد لیٹ جاتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے اور اگر میں نیند میں ہوتی تو آپ بھی سو جاتے حتی کہ آپ کے پاس صبح کی نماز کے لیے مؤذن آتا۔ (مسند أحمد:35/6) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لیٹنے کے دوران میں گفتگو کرتے تھے۔ بہرحال صبح کی دو سنت پڑھنے کے بعد لیٹنا مشروع ہے، اسے خلاف سنت قرار دینا درست نہیں۔ (فتح الباري:58/3)