تشریح:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق ظاہر کرنے کے لیے مختلف انداز اختیار کیے گئے ہیں۔ (الف)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ سوگیا ہے؟‘‘ اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خطاب فرماتے ہوئے یہ کلمہ کہا تھا۔ (ب)۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ساری رات بیدار رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو دیکھنا اور سیکھنا سمربالعلم ہے، گویا ان کے عمل سے عنوان ثابت ہوگیا ہے۔ (ج)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بائیں جانب سے ہٹا کر دائیں جانب کھڑا کیا تو گویا آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میری دائیں جانب کھڑے ہو جاؤ، اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب تکلفات ہیں۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت یہ ہے کہ وہ طالب علم کے ذہن کو تیز کرتے ہیں اور حدیث کے مختلف طرق پر نظر رکھنے کے لیے بسا اوقات ایسا کرتے ہیں اور دوسرے طریق سے عنوان ثابت کرتے ہیں جو کسی دوسری جگہ پر بیان ہوتا ہے۔ یہی روایت ایک دوسرے مقام پر بایں الفاظ ہے کہ آپ نے کچھ وقت اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو کی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4569) ان الفاظ سے عنوان کا ثبوت ملتا ہے اس سے کوئی تکلف یا دقت بھی نہیں ہوتی اور نہ اس میں کوئی خلاف عقل بات ہی ہے۔ (فتح الباري: 282/1)
2۔ ایک حدیث میں ہے کہ سمر (رات کو گفتگو) کی اجازت صرف نماز پڑھنے والے اور راستہ طے کرنے والے کو ہے۔ (مسند احمد: 444/1) اس سے شبہ ہوتا ہے کہ ان کے ماسوا کے لیے سمر جائز نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سمر فی العلم، سمر فى الصلاة کے ساتھ معلق ہے۔ حضرت عمر اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما رات بھر علمی مذاکرے میں مصروف رہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نماز کے متعلق کہا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم پہلے بھی نماز ہی میں تھے۔ اس لیے یہ حدیث رات کو علمی گفتگو کرنے کے خلاف نہیں۔ (فتح الباري: 282/1)