Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: Regularity of two Rak'a (Sunna) of the Fajr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1172.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے نماز عشاء پڑھی، پھر نماز تہجد کی آٹھ رکعات ادا کیں (پھر وتر پڑھے) اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھیں، پھر اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں ادا فرمائیں اور انہیں آپ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔
تشریح:
(1) نماز فجر کی دو سنت خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سفر و حضر میں کبھی ترک نہیں کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’فجر کی دو سنت دنیا اور اس کے تمام سازوسامان سے بڑھ کر ہیں۔‘‘(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1686(725)) حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں کو بڑی پابندی سے ادا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1686(724)) (2) ان روایات میں نماز وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا، البتہ رسول اللہ ﷺ سے ان کا بیٹھ کر ادا کرنا ہی ثابت ہے اور آپ نے انہیں اتفاقاً نہیں بلکہ قصداً بیٹھ کر ادا کیا ہے، کیونکہ تمام عمر کے اس فعل کو اتفاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہمیں کھڑے ہو کر ادا کرنی چاہئیں کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ آپ کو بیٹھ کر نوافل ادا کرنے سے پورا ثواب ملتا ہے، جبکہ ہمیں کھڑے ہو کر پڑھنے کی قدرت کے باوجود بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1133
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1159
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1159
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1159
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے نماز عشاء پڑھی، پھر نماز تہجد کی آٹھ رکعات ادا کیں (پھر وتر پڑھے) اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھیں، پھر اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں ادا فرمائیں اور انہیں آپ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) نماز فجر کی دو سنت خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سفر و حضر میں کبھی ترک نہیں کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’فجر کی دو سنت دنیا اور اس کے تمام سازوسامان سے بڑھ کر ہیں۔‘‘(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1686(725)) حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں کو بڑی پابندی سے ادا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1686(724)) (2) ان روایات میں نماز وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا، البتہ رسول اللہ ﷺ سے ان کا بیٹھ کر ادا کرنا ہی ثابت ہے اور آپ نے انہیں اتفاقاً نہیں بلکہ قصداً بیٹھ کر ادا کیا ہے، کیونکہ تمام عمر کے اس فعل کو اتفاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہمیں کھڑے ہو کر ادا کرنی چاہئیں کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ آپ کو بیٹھ کر نوافل ادا کرنے سے پورا ثواب ملتا ہے، جبکہ ہمیں کھڑے ہو کر پڑھنے کی قدرت کے باوجود بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدا للہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عراک بن مالک نے، ان سے ابو سلمہ نے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے عشاءکی نماز پڑھی پھر رات کو اٹھ کر آپ نے تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتیں صبح کی اذان واقامت کے درمیان پڑھیں جن کو آپ کبھی نہیں چھوڑ تے تھے۔ ( فجر کی سنتوں پر مداومت ثابت ہوئی )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA); Allah's Apostle (ﷺ) offered the 'Isha' prayer (and then got up at the Tahajjud time) and offered eight Rakat and then offered two Rakat while sitting. He then offered two Rakat in between the Adhan and Iqama (of the Fajr prayer) and he never missed them. ________