تشریح:
حدیث میں بحالت اقامت نمازوں کو جمع کرنے کی صورت بیان کی گئی ہے۔ کسی معقول سبب کی بنا پر بحالت اقامت بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خوف، بارش، آندھی، بیماری یا اور کوئی ہنگامی ضرورت۔ بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔ پھر سنن اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن مقیم ہونے کی صورت میں جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینی چاہئیں، مثلاً: اگر ظہر و عصر کو جمع کیا ہے تو ظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب و عشاء کو جمع کیا ہے تو مغرب کی سنتیں نہ پڑھی جائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دفعہ بصرہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکٹھی پڑھی تھیں اور آپ نے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا تھا۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:591) اس حدیث کے پیش نظر بحالت اقامت دو نمازوں کو جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینے میں چنداں حرج نہیں۔ صحیح بخاری کی مذکورہ روایت اسی صورت پر محمول ہے۔ واللہ أعلم۔