تشریح:
(1) ابن بطال بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اس عنوان سے متعلق نہیں بلکہ اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کرنا چاہیے تھا: ’’جو شخص نماز اشراق نہیں پڑھتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی کاتب کی غلطی ہے۔ لیکن ابن منیر نے کہا ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت پیدا کی ہے کیونکہ حدیث ابن عمر میں نفی اور حدیث ابو ہریرہ میں اثبات ہے، اس لیے نفی کو سفر اور اثبات کو حضر پر محمول کیا جائے۔ اسی طرح حدیث ام ہانی ایسے سفر پر محمول کی جائے جس میں حضر جیسی سہولیات ہوں۔
(2) اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جزم و وثوق کے ساتھ نفی نہیں کی بلکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مطلق طور پر سفر میں نماز چاشت کی نفی نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة:231/2) بلکہ حضرت انس ؓ سے صراحت کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں اشراق کے آٹھ نوافل پڑھے۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ’’میں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید وابستہ کرتے ہوئے انہیں پڑھا ہے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة:231/2) اس بنا پر حضرت ابن عمر ؓ کی مبنی بر تردد روایت سے حضرت انس ؓ سے مروی یقینی روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے حضرت ابن عباس ؓ نے نماز اشراق کو ایک موقع پر بدعت قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1775) بہرحال ان کا انکار اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے نہیں دیکھا۔ لیکن ابن عمر ؓ کا نہ دیکھنا اس بات کی دلیل نہیں کہ سرے سے اس نماز کا وجود ہی نہیں یا اس کا ادا کرنا بدعت ہے۔ قاضی عیاض وغیرہ نے لکھا ہے اشراق کی فرض نماز جیسی پابندی کرنا یا مسجد میں اس کا ادا کرنا یا باجماعت اہتمام کرنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ نے انکار کیا ہے۔ ان کے انکار کے یہ معنی نہیں کہ نماز اشراق خلاف سنت ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم نے اس کا اہتمام کرنا ہے تو اپنے گھروں میں کرو۔ (فتح الباري:89/3) روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب مکہ آتے یا مسجد قباء جاتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی انکار کی وجہ سے نماز اشراق کی مشروعیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی معلومات کے مطابق انکار کیا ہے۔ (فتح الباري:89/3)