تشریح:
(1) صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے مزید وضاحت ہے کہ رسول الله ﷺ کی عادت تھی کہ آپ کسی عمل کو پسند کرتے تھے مگر اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی کہ آپ کے عمل کو دیکھ کر لوگ بھی اسے اپنائیں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا۔ اس اندیشے کی بنا پر پسندیدہ ہونے کے باوجود آپ اس پر عمل نہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1662(718)) واضح رہے کہ نماز ضحیٰ کا دوسرا نام نماز اشراق ہے۔ وقت ادا کے اعتبار سے اس کے الگ الگ نام ہیں، یعنی اگر طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کریں تو نماز اشراق اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو جائے تو اسے نماز ضحیٰ کہا جاتا ہے۔ اسے محدثین کرام نے ضحوۂ صغریٰ اور ضحوۂ کبریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ اور دھوپ میں اس قدر شدت آ جائے کہ پاؤں جلنے لگیں لیکن زوال سے پہلے پڑھیں تو اسے صلاۃ الاوابین کہتے ہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے نماز اشراق کے متعلق اختلاف بیان کرتے ہوئے مختلف مسالک کی نشاندہی کی ہے جس کی مختصراً تفصیل کچھ یوں ہے: ٭ نماز اشراق مستحب ہے، البتہ اس کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ٭ کسی سبب کی وجہ سے اس کا اہتمام کیا جائے، مثلاً: کسی شہر کے فتح ہونے پر یا کسی مخالف کی موت پر یا کسی کے ہاں زیارت کے لیے جانے پر یا سفر سے واپسی پر۔ ٭ سرے سے مشروع نہیں، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ٭ اس پر مداومت نہ کی جائے بلکہ کبھی پڑھ لی جائے اور کبھی چھوڑ دی جائے۔ ٭ اس کے پڑھنے کا اہتمام گھروں میں کیا جائے، مساجد وغیرہ میں اس کا اظہار درست نہیں۔ ٭ یہ مستحب نہیں بلکہ بدعت ہے۔ (زادالمعاد:351/1)
(2) حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اس تفصیل کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:72/3) ہمارے نزدیک پہلا موقف راجح ہے اور اس کی کم از کم تعداد دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات ہیں، چنانچہ معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز اشراق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ چار رکعت پڑھتے تھے اور جس قدر اللہ چاہتا آپ اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1883(719)) حضرت عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی ﷺ کے متعلق پوچھا کہ آیا آپ نماز اشراق پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: جب آپ سفر سے واپس آتے تو اشراق پڑھ کر گھر آتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1660(717)) حضرت ام ذرہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز اشراق پڑھتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے نماز اشراق کی چار رکعات پڑھتے دیکھا ہے۔ (مسند أحمد:108/8) روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نماز اشراق بڑے اہتمام سے ادا کرتیں اور فرمایا کرتی تھیں: اگر میرے والدین بھی زندہ ہو کر آ جائیں تب بھی میں نماز اشراق نہیں چھوڑوں گی۔ (الموطأ للإمام مالك، باب صلاة الضحیٰ:52/1، 53)
(3) نماز اشراق کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم! تو میرے لیے چار رکعت (اشراق کی) اول دن میں پڑھ، میں اس دن کی شام تک تیرے کام سنوار دوں گا۔‘‘ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1289) امام نووی ؒ نے اپنی شرح صحیح مسلم میں نماز اشراق کی احادیث کے پیش نظر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’نماز اشراق کے استحباب کا بیان، اس کی کم از کم دو رکعات اور مکمل آٹھ رکعات ہیں، درمیانے درجے کی چار یا چھ رکعات ادا کرنا اور شوق سے اس کی پابندی کا بیان‘‘ چونکہ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات مروی ہیں، اس لیے جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی نفی سے مراد دوام ہے اور وہ خود اس کی پابندی کرتی تھیں۔ اس کی وجہ بھی انہوں نے خود بیان کر دی ہے کہ آپ اس لیے پابندی نہیں کرتے تھے کہ مبادا فرض ہو جائے۔ (فتح الباري:73/3) واللہ أعلم۔