تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھو، مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھو۔‘‘ پھر تیسری مرتبہ یہ الفاظ بھی ساتھ کہے: ’’جو پڑھنا چاہے۔‘‘ آپ نے یہ بات اس اندیشے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں لوگ اسے سنت لازمہ نہ بنا لیں۔ (صحیح ابن خزیمة:267/3) اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا ایک عمومی ارشاد بھی ہے کہ ہر دو اذانوں، یعنی اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔ لیکن تیسری مرتبہ اس فرمان کے ساتھ یہ فرمایا کہ صرف اس کے لیے جو پڑھنا چاہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:824) (2) رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث کے آخر میں جو فرمایا ہے اس سے ان کے استحباب کی نفی کرنا مقصود نہیں، کیونکہ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ آپ کسی ایسی بات کا حکم دیں جو مستحب نہ ہو، بلکہ یہ حدیث اس نماز کے مستحب ہونے کی زبردست دلیل ہے۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن بریدہ ؓ خود بھی مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة:266/3) اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اس سنت کو جاری نہیں رکھا گیا بلکہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے دور میں چھوڑ دیا گیا تھا۔