تشریح:
(1) نماز کا اول وقت نکلنے کے خدشے اور امام کی عدم دستیابی کے پیش نظر مقتدیوں میں سے صاحب علم و فضل آدمی جماعت کروا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا عمل موجود ہے۔
(2) ’’حضرت ابوبکر دوران نماز میں ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھتے تھے‘‘ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کامل توجہ اور حضور قلب سے پڑھنی چاہیے۔
(3) اس روایت میں دورانِ نماز صرف الحمدللہ کہنے کا ذکر ہے، سبحان اللہ کہنا اگرچہ اس روایت میں نہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے خود ہی اس روایت کو دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا، جب تمہیں نماز میں کوئی ماجرا پیش آتا ہے تو تالیاں بجانا شروع کر دیتے ہو، یہ کام تو صرف عورتوں کے لیے ہے، لہذا جس کسی کو دوران نماز میں کوئی ماجرا پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے۔‘‘ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، حدیث:1218) اس روایت سے دوران نماز میں سبحان اللہ کہنے کا جواز معلوم ہوا۔ ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی اگرچہ سبحان اللہ کہنے سے دوسروں کو متوجہ کرنا مقصود ہو۔
(4) اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں کو تالی بجانی چاہیے، جیسا کہ امام بخاری ؒ خود اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کریں گے۔ (فتح الباري:90/3)