تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو یوں کہا کرتے تھے کہ حضرت جبریل اور حضرت میکائیل پر سلامتی ہو، فلاں اور فلاں پر سلامتی ہو، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تو سراپا سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ پڑھے: (التحيات لله، والصلوات ۔۔۔) (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:831) ایک روایت میں ہے کہ ہم اس طرح کہتے تھے: اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلامتی ہو، اس پر رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835)
(2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دوران نماز کسی کا نام لینے یا کسی کو سلام کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، لیکن امام بخاری نے نماز کے جواز یا بطلان کی صراحت نہیں کی۔ انہوں نے معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے اس پر صریح حکم نہیں لگایا۔ (فتح الباري:100/3) ہمارے نزدیک اگر کوئی شخص ناواقفی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی لیکن دیدہ دانستہ ایسا کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ صحابۂ کرام ؓ تو ایسا اس لیے کرتے تھے کہ پہلے ایسا کرنا مشروع اور ثابت تھا، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا اور التحیات پڑھنے کا حکم دیا تو اس کا جواز ختم ہو گیا، لہذا اب کسی کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کا نام لے کر دوران نماز میں سلام کہے۔ واللہ أعلم۔