تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حصول علم کی صورت اورحفظ حدیث کے طریقے سے آگاہ فرماتے ہیں کہ جب استاد احادیث بیان کرے تو پوری توجہ اور انہماک سے سننا چاہیے تاکہ کوئی بات رہ نہ جائے، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ طلباء کے لیے اساتذہ کی توقیر و تعظیم انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح دیگر علماء کی باتیں بھی پورے اطمینان وسکون سے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنی جائیں کیونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء آپ کی سنتوں کے محافظ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے امین ہیں۔ اگرچہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں کو خاموش کرانے کا ذکر ہے تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حدیث میں مذکورہ واقعہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے، تاہم اس کا حکم عام ہے۔ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو لوگوں کی خاموشی کا انتظار کرنا چاہیے، اگرجلدی یاضروری کام ہو تو انھیں خاموش بھی کرایا جاسکتا ہے۔ بہرحال عوام الناس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء کی باتوں کو پوری توجہ سے سنیں اورانھیں یاد بھی رکھیں۔ اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب سننے والا توجہ سے سنے اور اسے سمجھے۔ اگر سنتے وقت بے پروائی سے کام لیا تو اسے یاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ علم کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: علم کے لیے پہلے توجہ، پھر خاموشی، اس کے بعد یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا، پھر اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ (فتح الباري: 287/1)
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم پھر کافر مت ہوجانا، محدثین نے اس کے دومفہوم بیان کیے ہیں: (الف)۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مل جل کر بھائیوں کی طرح رہیں۔ اگر مسلمان باہم دست وگریباں ہوں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے تو گویا انھوں نے کافروں کا شعار اپنا لیا ہے کیونکہ یہ کافروں کا کام ہے کہ وہ خواہ مخواہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہوگا بلکہ کبیرہ گناہ کے معنی میں ہوگا۔ (ج)۔ ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے بعد ایسا نہ ہو کہ تم اپنی راہ تبدیل کرلو اور مرتد ہو کر ایک دوسرے کے قتل کو حلال سمجھنے لگو۔ اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنوں میں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کے قتل کو اپنے لیے حلال سمجھنے والا بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ جن مسلمانوں کو اخوت وہمدردی کا سبق دیا گیا تھا، وہ آج افتراق و انتشار کا شکار ہیں اور آپس میں اس طرح لڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔
من از بیگانگاں ہر گز ننالم کہ بامن آنچہ کردآں آشنا کرد