قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ: أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَيَكِلُ العِلْمَ إِلَى اللَّهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

122. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا البَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ؟ فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ، إِذْ لَمْ يَرُدَّ العِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ البَحْرَيْنِ، هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ. قَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ بِهِ؟ فَقِيلَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ، وَحَمَلاَ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا، فَانْسَلَّ الحُوتُ مِنَ المِكْتَلِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي البَحْرِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ المَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ: (أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ) قَالَ مُوسَى: (ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا) فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ، أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ، فَسَلَّمَ مُوسَى، فَقَالَ الخَضِرُ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا مُوسَى، فَقَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لاَ تَعْلَمُهُ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لاَ أَعْلَمُهُ، قَالَ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، وَلاَ أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ البَحْرِ، لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ، فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، فَعُرِفَ الخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَجَاءَ عُصْفُورٌ، فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي البَحْرِ، فَقَالَ الخَضِرُ: يَا مُوسَى مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا العُصْفُورِ فِي البَحْرِ، فَعَمَدَ الخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ، فَنَزَعَهُ، فَقَالَ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا؟ قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟ قَالَ: لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا - فَكَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا -، فَانْطَلَقَا، فَإِذَا غُلاَمٌ يَلْعَبُ مَعَ الغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلاَهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ؟ قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟ - قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: وَهَذَا أَوْكَدُ - فَانْطَلَقَا، حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ، قَالَ الخَضِرُ: بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى، لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا» قال محمدبن يوسف حدثنابه على بن خشرم قال حدثناسفيان بن عينةبطوله

مترجم:

122.

حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ، موسیٰ بنی اسرائیل نہیں تھے بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ تھے۔ انہوں نے فرمایا: غلط کہتا ہے اللہ کا دشمن۔ فرمایا: حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی موسیٰ ﷺ ایک دن بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا: سب لوگوں میں بڑا عالم کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے نہ کیا۔ پھر اللہ نے ان پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں ایک بندہ، دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر، ایسا ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اے پروردگار! میری ان سے کیونکر ملاقات ہو گی؟ حکم ہوا: ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھو۔ جہاں وہ گم ہو جائے، وہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ پھر موسیٰ ؑ روانہ ہوئے اور ان کا خادم یوشع بن نون بھی ساتھ تھا۔ ان دونوں نے ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھ لیا۔ جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے۔ اس دوران میں مچھلی تھیلے سے نکل کر دریا میں چلی گئی جس سے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے خادم کو تعجب ہوا۔ پھر دونوں بقیہ دن اور ایک رات چلتے رہے۔ صبح کو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا: ناشتہ لاؤ! ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں۔ موسیٰ جب تک اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انہوں نے کچھ تھکاوٹ محسوس نہ کی۔ اس وقت ان کے خادم نے کہا: کیا آپ نے دیکھا کہ جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو مچھلی (نکل بھاگی تھی اور میں اس کا ذکر کرنا) بھول گیا۔ موسیٰ ؑ نے کہا: ہم تو اس کی تلاش میں تھے۔ آخر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے پاؤں کی نشانوں پر واپس لوٹے۔ جب اس پتھر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی کپڑا لپیٹے ہوئے یا اپنے کپڑے میں لپٹا ہوا ہے۔ موسیٰ ؑ نے اسے سلام کیا۔ حضرت خضر نے کہا: تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: (میں یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں بلکہ) میں موسیٰ ہوں۔ حضرت خضر ؑ نے کہا: کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: کیا میں اس امید پر تمہارے ہمراہ ہو جاؤں جو کچھ ہدایت کی تمہیں تعلیم دی گئی ہے، وہ مجھے بھی سکھا دو گے۔ خضر ؑ نے کہا: تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ! بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک (قسم کا) علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے اور تم کو ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: ان شاءاللہ تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر وہ دونوں سمندر کے کنارے چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی، اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے کہا: ہمیں سوار کر لو۔ حضرت خضر ؑ پہچان لیے گئے، اس لیے کشتی والوں نے بغیر اجرت کے بٹھا لیا۔ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے بیٹھ کر اس نے سمندر میں ایک دو چونچیں ماریں۔ حضرت خضر ؑ گویا ہوئے: اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف چڑیا کی چونچ کی بقدر حصہ لیا ہے۔ پھر حضرت خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ حضرت موسیٰ ؑ کہنے لگے: ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرائے کے سوارکیا اور آپ نے یہ کام کیا کہ ان کی کشتی میں چھید کر ڈالا تاکہ اہل کشتی کو غرق کر دو۔ حضرت خضرؑ نے فرمایا: کیا میں نے نہ کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ نے جواب دیا: میری بھول چوک پر مؤاخذہ نہ کریں۔ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:) موسیٰ کا پہلا اعتراض بھول کی وجہ سے تھا۔ پھر دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے، ایک لڑکا ملا جو دوسرے لڑکوں سے کھیل رہا تھا۔ خضر نے اس کا سر پکڑ کر الگ کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: آپ نے ایک معصوم جان کو ناحق قتل کیا۔ خضر نے کہا: میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ سے میرے ساتھ صبر نہیں ہو سکے گا؟‘‘ ابن عیینہ نے کہا: یہ زیادہ تاکیدی الفاظ ہیں (کیونکہ اس میں لك کا اضافہ ہے۔) ’’پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے باشندوں سے انہوں نے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اسی دوران میں دونوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی۔ حضرت خضر نے اسے اپنے ہاتھ سے سہارا دے کر سیدھا کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: اگر تم چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے؟ حضرت خضر بولے: بس یہاں سے ہمارے تمہارے درمیان جدائی کی گھڑی آ پہنچی ہے۔‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! ہم چاہتے تھے، کاش موسیٰ صبر کرتے تو ان کے اور حالات بھی ہم سے بیان کیے جاتے۔‘‘