تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ بڑائی، تفاخر اورخود پسندی کے اسباب علماء کو زیادہ میسر آتے ہیں، اس لیے یہ حضرات اپنی وجاہت اور شہرت کو بچانے کے لیے ہر بات کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں، مبادا ان کے متعلق کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے کہ اسے اس سوال کا جواب نہیں آیا، یہ کیساعالم ہے؟ علماء کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ جب ایک جلیل القدر پیغمبر کو معتوب ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے واللہ أعلم نہیں کہا توعام علماء کس طرح نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟علماء کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا جہل پیش نظررکھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ (بنی اسرائیل: 85:17) ’’اور تمھیں علم بہت ہی کم دیاگیا ہے‘‘۔ نیز فرمایا: ﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾ (یوسف: 12:76) ’’ہرجاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہے۔‘‘ قرآن کی اس وضاحت کے پیش نظر علمائے کرام کی معلومات بہرحال محدود اور ان کی مجہولات غیر محدود ہیں۔ اپنی معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے مجہولات کو نظر انداز کردینا دانشمندی نہیں۔ جب کسی عالم دین کے سامنے اپنی مجہولات ہوں گی تو دماغ میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں سب سے بڑا ہوں۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کا جواب اس اعتبار سے صحیح تھا کہ آپ صاحب کتاب، جلیل القدر پیغمبر تھے، انھیں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اس بنا پر جوعلوم و معارف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو سکتے تھے، وہ کسی دوسرے کے پاس کیسے ہوسکتے تھے؟ لیکن اللہ کی جناب میں ان کا یہ جواب ان کی شایان شان نہ تھا۔ انھیں اپنے علم کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس تناظر میں علماء حضرات کی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ (اَعلَمُ النَّاسِ) کون ہے؟ تو اپنے آپ كو پيش نظر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس طرح بھی نہ کہے کہ لوگوں کی نظر تو مجھ پر ہی پڑتی ہے۔ اگرسوال نہ بھی کیا جائے تب بھی خود کو اونچا نہ خیال کیاجائے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ ہرحالت میں تواضع کو پیش نظر رکھیں اور اپنے نقص اوراللہ کے کمال کے معترف رہیں۔
2۔ موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں دوچیزوں کے متعلق اختلاف ہوا: (الف)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جن سے ملاقات کے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کیا اور اپنے گھر سے رخت سفر باندھا وہ حضرت خضر ہیں یا کوئی اور صاحب؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےتھے کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں جبکہ حضرت حر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف کچھ اورتھا۔ اس اختلاف کا فیصلہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موافقت میں دیا۔ (ب)۔ دوسرا اختلاف یہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جانے والے حضرت موسیٰ بن عمران پیغمبر ہیں یا موسیٰ بن میثا؟ حضرت ابو یزید نوف بن فضالہ بکالی جو دمشق کے بہت بڑے عالم دین اور جلیل القدر تابعی ہیں، ان کاموقف تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر نہیں بلکہ میثا کے بیٹے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ واضح رہے کہ انھیں یہ معلومات جناب کعب احبار سے ملی تھیں کیونکہ نوف بکالی کعب احبار کی بیوی کے بیٹے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مؤقف کی بڑی سختی سے تردید فرمائی۔ فرمایا کہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حقیقتاً اسے اللہ کا دشمن سمجھتے تھے بلکہ بات یہ ہے کہ حضر ت نوف بکالی بہت بڑے واعظ تھے اور واعظین حضرات کا وقار عوام الناس میں بہت ہوتا ہے۔ اگرحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پرزور انداز میں تردید نہ فرماتے تو اندیشہ تھا کہ عقیدت مند حضرات اس موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ( عمدۃ القاری 272/2) حضرت خضر اس اعتبار سے زیادہ عالم تھے کہ انھیں تکویینات سے کچھ معلومات دی گئی تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہ تھیں۔ ان کے پاس علم تشریعی تھا جس کا کچھ حصہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس ضرور تھا کیونکہ حضرت خضر، خواہ نبی ہوں یا ولی، کسی نہ کسی شریعت کے ضرور پابند تھے۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تشریعی علوم کے مقابلے میں ان کے تکوینی علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے جس کا اعتراف حضرت خضر علیہ السلام نے بایں الفاظ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کا علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں اور تمھیں ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں۔ دراصل حضرت خضر علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے علوم آپ کے پاس نہیں، اور آپ کے علوم میرے پاس نہیں۔ اس لیے (اَعلَم) میں ہوں نہ کہ آپ، بلکہ (اَعلَم) وه ذات اقدس ہے جس نے ہم دونوں کو علم سے بہرہ ورکیا ہے۔
4۔ اس واقعے کے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھوں نے صبر نہ کیا بلکہ جلدی سے کام لیا، اگرحضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رہتے تو ان کے مزید حالات سے ہمیں آگاہی ہوتی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تکوینی علوم آپ کے پاس بھی نہ تھے، وہ صرف حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تھے، لیکن یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں، کیونکہ تکوینی علوم خالق کائنات کے لیے باعث کمال ہیں، کسی مخلوق کے لیے نہیں۔ اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکوینی علوم سے ناواقف ہونا کمی کی دلیل ہرگز نہیں ہو سکتا۔
5۔ حضرت خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہ تھے لیکن آپ کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ انھیں چاہیے تھا کہ اس بات کو اللہ کے حوالے کر دیتے، چنانچہ ان کا مقابلہ ایسے انسان سے کرایا گیا جو ان سے درجے میں کہیں کم تھا تاکہ اس قسم کا دعویٰ نہ کریں۔
6۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوا کہ ایک عالم دین کو خلاف شرع کام دیکھ کر خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کا انکار کرنا ضروری ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہی تقاضا ہے۔خلاف شریعت کام دیکھ کر علم کے باوجود انھیں ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلینا اور حق بات نہ کہنا، ضعف ایمان کی علامت ہے جو ایک عالم کی شان کے خلاف ہے۔ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم أجمعین کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت بھی انھوں نے یہ فریضہ ادا کیا اور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو روا نہ رکھا۔ رضي الله عنهم أجمعين۔