تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ وہ شخص دوران نماز دنیاوی سوچ بچار میں مصروف رہا، اس بنا پر وہ رسول اللہ ﷺ کی قراءت کو ضبط نہ کر سکا۔ ایسا کرنے سے خشوع خضوع میں کمی تو آ جاتی ہے لیکن نماز کا بطلان نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس حضرت ابو ہریرہ ؓ دوران نماز میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت کے متعلق غوروفکر کرتے رہے، اس لیے انہوں نے ان سورتوں کو یاد رکھا جو رسول اللہ ﷺ نے گزشتہ شب نماز میں پڑھی تھیں۔ (فتح الباري:119/3) بہرحال دوران نماز تفکرات آنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔
(2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو دوسروں سے زیادہ ضبط و اتقان تھا۔
(3) حضرت ابو ہریرہ ؓ پر اعتراض رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد ہوا۔ اس اعتراض کا جواب انہوں نے اپنے ایک قصے سے استدلال کرتے ہوئے دیا جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پیش آیا تھا، یعنی مجھے رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کی فکر رہتی تھی، میں ان میں غوروخوض کرتا جبکہ باقی لوگ اپنی کھیتی باڑی اور کاروبار میں مصروف رہتے۔
(4) بہرحال امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچ بچار کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، کیونکہ خیالات و تفکرات ایسی چیز ہیں جن پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، لیکن خیالات کی نوعیت کا فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ دوران نماز اگر امور آخرت کے متعلق خیالات آئیں تو وہ دنیاوی امور کی نسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہوں گے۔ واللہ أعلم۔