تشریح:
(1) ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے دوران نماز میں بھولنے کا بیان ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے سبحان اللہ کہا لیکن آپ اپنی نماز میں جاری رہے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1179) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں سجدوں میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1230، و فتح الباري:121/3) اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو میں تکبیر بآواز بلند اور درمیانی فاصلہ ہے، نیز پتہ چلا کہ امام کے ساتھ مقتدی بھی سجدہ کریں گے، اگرچہ وہ بھولنے میں امام کے شریک نہ بھی ہوں۔ (فتح الباري:121/3، 122)
(2) امام بخاری ؒ کے نزدیک تشہد اول واجب نہیں، چنانچہ انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’تشہد اول غیر واجب ہے۔‘‘ آپ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد اول بھول گئے اور کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نہ بیٹھے۔ اگر واجب ہوتا تو آپ دوبارہ بیٹھ کر اس کی تلافی کرتے۔ آپ نے صرف سجدۂ سہو پر اکتفا کیا۔ بہرحال اس روایت سے سجدۂ سہو کے ایک سبب کا پتہ چلتا ہے کہ نمازی جب اپنی نماز میں کسی کمی کا مرتکب ہو تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو گی، چنانچہ دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے۔ اس میں فرماتے ہیں کہ سجدۂ سہو کے تین اسباب ہیں: ٭ نماز میں کسی قسم کا اضافہ۔ ٭ دوران نماز کسی قسم کی کمی۔ ٭ نماز میں شک و شبہ پڑ جانا۔ مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تشہد چھوڑ دینے کی وجہ سے سجدۂ سہو کیا تھا، گویا نماز میں کمی کر دی تھی۔ ہم مذکورہ رسالے سے دوران نماز میں کمی کی بنا پر سجدۂ سہو کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ اگر نماز میں کوئی رکن رہ جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر تکبیر تحریمہ ہی رہ گئی، خواہ دانستہ یا بھول کر تو سرے سے نماز نہیں ہو گی کیونکہ تکبیر تحریمہ نماز کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رکن دانستہ چھوڑ دیا جائے تو بھی نماز باطل ہے کیونکہ جان بوجھ کر کسی رکن کو چھوڑ دینا نماز کو خود ہی باطل کر دینا ہے۔ اگر نادانستہ طور پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی رکن کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں: ٭ اگر نمازی اگلی رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچ چکا ہے اور اسے یاد نہیں آتا تو اس صورت میں پہلی رکعت باطل ہو جائے گی، دوسری رکعت خودبخود اس کے قائم مقام ہو گی، مثلاً: ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا اور اسے دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے یاد آیا کہ میں نے پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ نہیں کیا تھا، چونکہ وہ رکن متروک تک پہنچ چکا ہے اور اس کی پہلی رکعت اس کی ادائیگی کے بغیر پڑھی گئی ہے، لہذا پہلی رکعت باطل ہو گی اور دوسری رکعت اس کے قائم مقام ہو گی۔ اس طرح وہ اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ ٭ اگر دوسری رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اسے یاد آ گیا کہ میری پہلی رکعت میں دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو فورا اٹھ کر متروکہ رکن ادا کرے۔ اس کے بعد بقیہ نماز پوری کرے، مثلاً: ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ اور اس سے قبل بیٹھنا بھول گیا اور اسے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا کہ میری پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو وہ فوراً بیٹھ جائے اور متروکہ سجدہ کرے۔ اس کے بعد اپنی بقیہ نماز ادا کرے اور سلام پھیر دے۔ پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ اگر نماز میں رکن کے بجائے کوئی دوسرا واجب رہ گیا ہے تو اگر نمازی نے اس واجب کو دانستہ ترک کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز سرے سے نہیں ہو گی اور اگر بھول کر چھوڑا ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: ٭ جہاں وہ واجب ادا ہوتا ہے اس مقام پر فوراً یاد آ گیا تو اسے مکمل کرے، مثلاً: ایک نمازی نے دوسری رکعت کے آخری سجدے سے سر اٹھایا اور وہ اپنی دانست کے مطابق تیسری رکعت کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، حالانکہ اس نے تشہد نہیں پڑھا، لیکن اٹھنے سے پہلے پہلے یاد آ گیا تو اس صورت میں وہ بیٹھا رہے اور تشہد پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے۔ اس قسم کے سہو و نسیان پر کوئی سجدہ نہیں۔ ٭ اگر اسے تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد یاد آیا، لیکن ابھی تک پوری طرح سیدھا کھڑا نہیں ہو پایا تھا کہ اسے متروکہ واجب یاد آ گیا تو فورا اٹھ کر تشہد پڑھے اور اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیرے۔ اس کے بعد سجدۂ سہو کرے اور آخر میں دوبارہ سلام پھیرے۔ ٭ اگر اسے دوسرا رکن شروع کرنے کے بعد یاد آیا تو اس صورت میں متروکہ واجب ساقط ہو جائے گا اور وہ اس کے بغیر ہی نماز ادا کرے گا، مثلاً: نمازی تیسری رکعت ادا کرنے کے لیے تشہد پڑھے بغیر پوری طرح سیدھا کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں تشہد ساقط ہو جائے گا۔ نمازی تشہد کے بغیر ہی اپنی نماز مکمل کرے اور سلام سے قبل سجدۂ سہو کر کے آخر میں سلام پھیر دے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) (3) امام بخاری ؒ کی پہلی پیش کردہ حدیث میں نماز کی صراحت نہیں تھی جس میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا تھا، اس لیے دوسری روایت پیش کی جس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز ظہر میں سہو کا واقعہ پیش آیا تھا۔ آپ کی یہ بھول بھی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو سہو کے متعدد مسائل ہمیں معلوم نہ ہوتے۔ واللہ أعلم۔