تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی نے نماز ظہر یا عصر شروع کی، لیکن نادانستہ طور پر دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تو اس کی تلافی بایں طور ہو سکتی ہے کہ فوراً یاد آنے پر بقیہ نماز ادا کرے اور نماز کے سجدے کی طرح یا اس سے بھی طویل دو سجدے بطور سہو کرے۔ لیکن اس سلسلے میں جو روایت پیش کی ہے اس میں دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیرنے کا ذکر نہیں ہوتا، تاہم دیگر روایات میں اس کی تفصیل ہے، چنانچہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوسری رکعت کے بعد سلام پھیر دیا تھا۔ (حدیث: 1228) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ نماز عصر میں تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293(574)) نماز جیسے یا اس سے بھی طویل دو سجدے کرنے کا ذکر بھی صحیح بخاری میں ہے۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1228)
(2) سجدۂ سہو سلام سے پہلے ہو یا بعد میں، اس میں اختلاف ہے۔ ہم یہاں شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرنے کے دو مقام ہیں: ٭ جب نماز میں کسی قسم کی کمی ہو جائے، جیسا کہ عبداللہ ابن بحینہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ سہواً درمیانی تشہد چھوڑ دیا تھا تو آپ نے سلام سے پہلے دو سجدے کیے۔ یہ حدیث: (1224) پہلے گزر چکی ہے۔ ٭ جب دوران نماز میں تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کسی ایک جانب رجحان نہ ہو سکے تو یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کیا جائے، پھر سلام سے پہلے سہو کے دو سجدے کیے جائیں۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1272(671)) اسی طرح سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنے کے بھی دو مقام ہیں: ٭ اگر نماز میں کسی قسم کا اضافہ ہو جائے تو سلام کے بعد دو سجدے کیے جائیں، پھر دوبارہ سلام پھیرا جائے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1226) اس حدیث کے مطابق حکم عام ہے قطع نظر اس کے کہ نماز میں اضافے کا علم دوران نماز میں ہو یا سلام کے بعد۔ چونکہ نماز ظہر کی پانچ رکعت پڑھنے پر سجدۂ سہو کیا گیا ہے اور حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ آپ کو سلام کے بعد اضافے کا علم ہوا تھا، اس لیے آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے ہیں۔ اس بنا پر مطلق طور پر اضافے کی صورت میں سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنا مناسب ہے۔ ٭ اگر دوران نماز تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کوشش و تحری سے ایک جانب رجحان ہو جائے تو اس صورت میں بھی سلام کے بعد ہی سجدۂ سہو کرنا ہو گا، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرتے ہوئے اپنی نماز مکمل کرے، پھر سلام پھیر کر آخر میں دو سجدے کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:401)
(3) اگر نماز میں دو سہو ہو جائیں ایک کا تقاضا سلام سے پہلے کا ہو اور دوسرے کا تقاضا سلام کے بعد کا تو سلام سے پہلے ہی دو سجدے کیے جائیں، مثلاً: ایک شخص نماز ظہر پڑھتے ہوئے اپنے خیال کے مطابق دوسری رکعت کے بعد، جو در حقیقت تیسری تھی، تشہد بیٹھ گیا۔ تشہد سے کھڑا ہوا تو اسے یاد آیا کہ وہ دو رکعتوں کے بعد تشہد بھول گیا تھا اور دوسری کی بجائے تیسری کے بعد اس نے تشہد کیا ہے جو کہ زائد ہے اور اب اس کی چوتھی رکعت ہے تو وہ اپنی یہ رکعت مکمل کر کے سجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دے۔ اس صورت میں تشہد اول ترک کرنے کی وجہ سے سلام سے پہلے سجدۂ سہو ہے اور تیسری رکعت میں جلوس کا اضافہ کرنے کی وجہ سے سلام کے بعد سہو ہے، لیکن سلام سے پہلے سجدۂ سہو کو ترجیح دی جائے گی۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) الغرض سجدۂ سہو سلام سے پہلے یا بعد دونوں طرح جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے دونوں طرح ثابت ہے، البتہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ ان سجدوں کے جو اسباب سلام سے پہلے کسی فعل کے ساتھ مقید ہوں، وہاں سلام سے پہلے سجدے کیے جائیں اور جہاں سلام کے بعد مقید ہوں وہاں سلام کے بعد کیے جائیں اور جن اسباب کی ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی قید نہ ہو ان میں زیادتی اور نقصان کو دیکھے بغیر نمازی کو سلام سے پہلے اور بعد میں سجدے کرنے کا اختیار ہے۔ واللہ أعلم۔