تشریح:
1۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے لیے اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے تعظیماً کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2755) نیز آپ نے فرمایا کہ عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرو، کیونکہ وہ تعظیم کی خاطر ایک دوسرے کے لیے کھڑےہوتے ہیں۔ (مسند احمد: 253/5) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر بیٹھے ہوئے عالم سے کوئی شخص کھڑے کھڑے سوال کرتا ہے تو وہ احادیث مذکورہ کے عموم میں داخل نہیں بشرطیکہ خود پسندی اور تکبر کی بنا پر ایسا نہ ہو۔ ہاں اگر عالم دین سائل کو بیٹھنے کی اجازت نہ دے اور وہ چاہے کہ سائل کھڑا ہی رہے ایسا کرنے سے اس کے جذبات کو تسکین ہوتی ہو تو ایسا کرنا درست نہیں لیکن اگر سائل خود بیٹھنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ جلدی کے پیش نظر فوراً جانا چاہتا ہے تو وہ اس وعید کے تحت نہیں آتا جو احادیث میں مذکور ہے۔ (فتح الباري: 292/1)
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گزشتہ ایک باب بایں الفاظ قائم کیا تھا ’’امام یا محدث کے آگے دوزانو بیٹھنا‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ سوال یا تحصیل علم کے لیے اطمینان کی نشست اختیار کرنی چاہیے اس عنوان کے پیش نظر گمان ہو سکتا تھا کہ شاید کھڑے ہو کر سوال کرنا درست نہ ہو، آپ نے مذکورہ حدیث سے کھڑے ہو کر سوال کرنے کا جواز ثابت فرما دیا۔ اس جواز کی بنیاد راوی کا یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اس لیے اٹھایا تھا کہ سائل کھڑا تھا، بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں یہ وضاحت کرنے والے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جنھوں نے اپنا مشاہدہ نقل کیا ہے۔ اگر کوئی اور راوی ہے تو بھی استدلال صحیح ہے کیونکہ اس نے مشاہدے کی بنا پر ایسا کہا ہے۔
3۔ اس حدیث میں لڑائی کے محرکات کا ذکر ہے۔ مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ محرکات مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔ (1) اعلائے کلمۃ اللہ، انتقامی جذبہ، قومی عصبیت۔ یہ تو اسی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، نیز حصول مال و دولت، شہرت و ناموری اور شجاعت و بہادری بھی لڑائی کا سبب ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث: 2810) اس کے علاوہ ہوس، ملک گیری اور قیمتی وسائل پر قبضہ جمانا بھی ہو سکتا ہے۔ ان سب میں قتال فی سبیل اللہ وہ ہو گا۔ جس کے پیش نظر صرف اعلائے کلمۃ اللہ اور غلبہ دین اسلام ہو۔ امام صاحب نے اس حدیث پر کئی ایک عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی ذکاوت فہم اور قوت استنباط پر دلالت کرتے ہیں مثلاً: کتاب الجہاد میں ایک عنوان بایں الفاظ ہے: جو اس لیے لڑتا ہے تاکہ اللہ کا بول بالا ہو۔ ایک دوسرا عنوان یوں قائم کیا: جو حصول غنیمت کے لیے لڑائی کرتا ہے کیا اس سے اجر کم ہو جائے گا؟ کتاب التوحید میں کلمۃ اللہ کی تفسیر میں اس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بندی کے وقت ذخیرہ احادیث پر بھی نظر رکھتے ہیں اور مسائل واحکام کی نزاکتوں کا پورا پو را خیال رکھتے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت نظر اور دقت نظر سے حسد و بغض ہے، اس لیے انھیں جب موقع ملتا ہے تو وہ برملا اظہار کرتے ہیں، چنانچہ امین احسن اصلاحی نے کہا ہے۔ ’’امام صاحب نے اتنی اہم روایت کو ایک بے معنی باب سے ڈھانک دیا ہے۔‘‘(تدبر حدیث: 223/1) اسے کہتے ہیں:’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی ۔‘‘