تشریح:
(1) اس حدیث میں محل سجود کی تعیین نہیں کہ وہ سلام سے پہلے ہیں یا بعد میں، اس کی وضاحت ایک اور روایت میں ہے جسے امام دارقطنی ؒ نے بیان کیا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو دوران نماز میں سہو ہو جائے اور اسے پتہ نہ چل سکے کہ زیادہ رکعات پڑھی ہیں یا کم تو اسے چاہیے کہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے۔ (فتح الباري:135/3) اس روایت سے معلوم ہوا کہ شک کی صورت میں اسے سلام سے پہلے دو سجدے کرنے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:401)
(2) دوران نماز شک گزرنے کی صورت میں کچھ تفصیل ہے، اگر نمازی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرے اور اپنی مستحکم رائے پر نماز کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے پورا کرے اور سلام پھیر دے۔ سلام کے بعد آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے۔ (سنن دارقطني:40/2، طبع دارالمعرفة) درست رائے واضح نہ ہو سکے تو شک والی رکعت کو نظرانداز کر دے اور جتنی رکعات یقینی ہیں، انہیں شمار کرے اور یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے بقیہ نماز پوری کرے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کسی کو دوران نماز میں شک پڑ جائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو شک کو نظر انداز کر دے اور یقین پر نماز کی بنیاد رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے۔ اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہوں گی تو یہ سجدے چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے۔ اور اگر اس نے پوری نماز (چار رکعت) ہی پڑھی ہے تو یہ دو سجدے شیطان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1272(571)) اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے علم نہ ہو کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو، تو وہ اپنی نماز کو ایک رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین تو وہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ اسے تین رکعت ہی بنا لے۔ پھر جب وہ نماز سے فراغت کے قریب ہو تو سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے ہی سہو کے دو سجدے کرے۔‘‘ (مسندأحمد:190/1)
(3) دوران نماز میں شک پڑنے کی صورت میں شیخ محمد بن صالح عثیمین کی تحقیق حسب ذیل ہے: دو معاملات کے درمیان تردد کو شک کہتے ہیں کہ کون سا معاملہ واقع ہے۔ درج ذیل تین حالات میں شک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے: ٭ دوران نماز میں محض وہم پیدا ہوا جس کی کوئی حقیقت نہ ہو، جیسا کہ وسوسہ وغیرہ ہوتا ہے۔ ٭ جب نمازی کو بکثرت وہم کی بیماری لاحق ہوتی ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ٭ عبادت سے فراغت کے بعد شک پڑ جائے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے جب تک اسے یقین نہ ہو جائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ اگر دوران نماز شک پڑ جائے تو وہ قابل اعتبار ہو گا اور اس کی دو حالتیں ممکن ہیں: ٭ نمازی کا رجحان ایک طرف ہو، اس صورت میں اپنے رجحان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیرے، پھر دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، مثلاً ایک نمازی کو نماز ظہر پڑھتے ہوئے شک پڑا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن رجحان تیسری رکعت کی طرف ہے تو اسے تیسری قرار دے کر اپنی نماز پوری کرے، یعنی چوتھی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اس کے بعد دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: 401) میں ہے۔ ٭ اگر نمازی کا رجحان کسی جانب نہیں ہے تو وہ شک کو نظر انداز کر کے یقین پر بنیاد رکھے جو کہ کم رکعات پر بنیاد ہو گی۔ پھر نماز مکمل کر کے سلام سے قبل دو سہو کے سجدے ادا کرے اور سلام پھیر دے، مثلاً: ایک نمازی کو نماز عصر پڑھتے ہوئے شک گزرا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن اس کا رجحان کسی جانب نہیں تو کم رکعات پر بنیاد رکھے، یعنی اسے دوسری قرار دے کر پہلا تشہد پڑھے، اس کے بعد دو رکعات پڑھے، پھر سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے، جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 1272 (571)) میں ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)