تشریح:
(1) احناف کے نزدیک نماز میں اشارہ کرنا مکروہ ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں اشارہ کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز اشارہ فرمایا، لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ یہ سب دوران نماز اشارے ہی ہیں۔ ان سے نماز میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوئی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اذکار وغیرہ کو اگر دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ ذکر کے زمرے سے خارج ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک ان کی شان نہیں بدلتی۔ اسی میں سہولت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ہم اس پر عمل کر کے بھی جنت سے محروم نہیں رہیں گے۔
(2) ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی، لیکن حضرت ابوبکر ؓ تواضع اور انکسار کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ آپ کی امامت پر راضی تھے اور آپ نے اس کے متعلق اشارہ بھی فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے خیال فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں تشریف لائے ہیں، اس لیے آپ امامت کرانا چاہتے ہیں، بصورت دیگر آپ آگے تشریف نہ لاتے بلکہ پیچھے ہی ان کی امامت میں نماز ادا کر لیتے، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں پیچھے ہی نماز ادا کر لی تھی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں تھا وگرنہ حضرت ابوبکر ؓ اس کی مخالفت نہ کرتے۔