تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود علمائے کرام کو تنبیہ فرمانا ہے کہ ان حضرات کو عوام کے سامنے ہراس جائز عمل سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے غلط فہمی کا اندیشہ ہو ممکن ہے کہ جس عمل کو جائز اور مستحب خیال کر کے کیا جارہا ہو، وہ مصلحت عامہ کے خلاف ہو اور اس عمل کے اختیار کرنے میں بجائے فائدے کے نقصان ہو، وہ علماء سے متنفر ہو جائیں اور ان کے قریب آنے کے بجائے ان سے دور ہو جائیں، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے مثلاً جوتے سمیت نماز پڑھنا سنت ہے لیکن اگر کسی جگہ لوگ جاہل ہوں اور ایسا کام کرنے سے اختلاف اور فساد کا اندیشہ ہو تو ایسی سنت پر عمل کرنے کو آئندہ کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حکیمانہ انداز سے انھیں اس کی اہمیت بتاتے رہنا ایک داعی کا اہم فریضہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دین کے ضروری کام عوام کے ردعمل کے ڈر سے مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر بت شکنی کے عمل کو کسی رد عمل کے ڈرسے مؤخر نہیں کیا یعنی ہر بات اور کام کے کرنے کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے لیکن یہ کلیہ فرائض و واجبات کے لیے نہیں، انھیں بروقت ہی بجالانا ضروری ہے۔
2۔ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا اس کی سطح زمین کے برابر تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔ ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکلتے تھے تاکہ بھیڑ نہ ہو۔ لیکن جب قریش نے اس کی از سر نو تعمیر کی تو اپنے امتیازات اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے دو تصرف کیے: (1)۔ اسے سطح زمین سے کافی اونچا کردیا تاکہ سیڑھی کے بغیر کوئی اندر داخل نہ ہو سکے اس کے لیے ان کا محتاج رہے۔ (2)۔ اس کا دروازہ ایک کردیا اور اس پر بھی اپنا آدمی بٹھا دیا تاکہ کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر اندر نہ جا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسے بنائے ابراہیمی کے مطابق کردیا جائے۔ لیکن اندیشہ تھا کہ قریش کے نومسلم حضرات اسے کہیں اپنے وقار کا مسئلہ نہ بنالیں اور آپ پر ناموری و تفاخر کا شبہ کریں کہ آپ نے قریش کے مشترکہ حق کو اپنی ذات کے لیے خاص کر لیا ہے۔ جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کا علم، ہوا تو انھوں نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے مطابق کردیا لیکن حجاج بن یوسف نے دوبارہ پھر اسی قریشی نقشے کے مطابق کردیا۔
3۔ تاریخی اعتبار سے بیت اللہ کی تعمیر سات مرتبہ ہوئی ہے سب سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ فضیلت حاصل کی، اس کے بعد عمالقہ، پھر جرہم، پھر قریش نے تعمیر کیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کشف ستر(جسم سے چادر کے اترجانے) کا واقعہ پیش آیا جس پر آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شرف حاصل کیا۔ آخر میں حجاج بن یوسف نے اسے قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔ اب بیت اللہ اسی آخری تعمیر پر قائم ہے۔ (عمدۃ القاری:2 /288)۔
4۔ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کیا تو اخراجات کے لیے وافر رقم مہیا نہ ہو سکی اس بنا پر انھوں نے حطیم کا حصہ کھلا چھوڑ دیا۔ باقی حصے پر چھت ڈال دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چاہتے تھے کہ پانچ چھ ہاتھ حطیم کے حصے پر بھی چھت ڈال دی جائے لیکن آپ کے پاس ان اخراجات کے لیے رقم نہ تھی اور نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال تھا۔ اس بنا پر آپ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ بیت اللہ کی تعمیر کا مسئلہ نہ چھیڑا جائے۔ ( صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3245،(1333))