صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
44. باب: اس بارے میں کہ کھڑے ہو کر کسی عالم سے سوال کرنا جوبیٹھا ہوا ہو(جائز ہے)
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
44. بَابُ مَنْ سَأَلَ وَهُوَ قَائِمٌ عَالِمًا جَالِسًا
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
44. Chapter: Whosoever, while standing, asked a religious learned man who was sitting (on a pulpit or a similar thing, about something)
باب: اس بارے میں کہ کھڑے ہو کر کسی عالم سے سوال کرنا جوبیٹھا ہوا ہو(جائز ہے)
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whosoever, while standing, asked a religious learned man who was sitting (on a pulpit or a similar thing, about something))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
126.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑنا کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصے کی وجہ سے لڑتا ہے اور کوئی حمیت کے سبب جنگ کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں: آپ نے اپنا سر مبارک اس لیے اٹھایا تھا کہ وہ کھڑا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ کا بول بالا ہو تو ایسی لڑائی اللہ عزوجل کی راہ میں ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے لیے اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے تعظیماً کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2755) نیز آپ نے فرمایا کہ عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرو، کیونکہ وہ تعظیم کی خاطر ایک دوسرے کے لیے کھڑےہوتے ہیں۔ (مسند احمد: 253/5) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر بیٹھے ہوئے عالم سے کوئی شخص کھڑے کھڑے سوال کرتا ہے تو وہ احادیث مذکورہ کے عموم میں داخل نہیں بشرطیکہ خود پسندی اور تکبر کی بنا پر ایسا نہ ہو۔ ہاں اگر عالم دین سائل کو بیٹھنے کی اجازت نہ دے اور وہ چاہے کہ سائل کھڑا ہی رہے ایسا کرنے سے اس کے جذبات کو تسکین ہوتی ہو تو ایسا کرنا درست نہیں لیکن اگر سائل خود بیٹھنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ جلدی کے پیش نظر فوراً جانا چاہتا ہے تو وہ اس وعید کے تحت نہیں آتا جو احادیث میں مذکور ہے۔ (فتح الباري: 292/1) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گزشتہ ایک باب بایں الفاظ قائم کیا تھا ’’امام یا محدث کے آگے دوزانو بیٹھنا‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ سوال یا تحصیل علم کے لیے اطمینان کی نشست اختیار کرنی چاہیے اس عنوان کے پیش نظر گمان ہو سکتا تھا کہ شاید کھڑے ہو کر سوال کرنا درست نہ ہو، آپ نے مذکورہ حدیث سے کھڑے ہو کر سوال کرنے کا جواز ثابت فرما دیا۔ اس جواز کی بنیاد راوی کا یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اس لیے اٹھایا تھا کہ سائل کھڑا تھا، بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں یہ وضاحت کرنے والے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جنھوں نے اپنا مشاہدہ نقل کیا ہے۔ اگر کوئی اور راوی ہے تو بھی استدلال صحیح ہے کیونکہ اس نے مشاہدے کی بنا پر ایسا کہا ہے۔ 3۔ اس حدیث میں لڑائی کے محرکات کا ذکر ہے۔ مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ محرکات مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔ (1) اعلائے کلمۃ اللہ، انتقامی جذبہ، قومی عصبیت۔ یہ تو اسی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، نیز حصول مال و دولت، شہرت و ناموری اور شجاعت و بہادری بھی لڑائی کا سبب ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث: 2810) اس کے علاوہ ہوس، ملک گیری اور قیمتی وسائل پر قبضہ جمانا بھی ہو سکتا ہے۔ ان سب میں قتال فی سبیل اللہ وہ ہو گا۔ جس کے پیش نظر صرف اعلائے کلمۃ اللہ اور غلبہ دین اسلام ہو۔ امام صاحب نے اس حدیث پر کئی ایک عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی ذکاوت فہم اور قوت استنباط پر دلالت کرتے ہیں مثلاً: کتاب الجہاد میں ایک عنوان بایں الفاظ ہے: جو اس لیے لڑتا ہے تاکہ اللہ کا بول بالا ہو۔ ایک دوسرا عنوان یوں قائم کیا: جو حصول غنیمت کے لیے لڑائی کرتا ہے کیا اس سے اجر کم ہو جائے گا؟ کتاب التوحید میں کلمۃ اللہ کی تفسیر میں اس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بندی کے وقت ذخیرہ احادیث پر بھی نظر رکھتے ہیں اور مسائل واحکام کی نزاکتوں کا پورا پو را خیال رکھتے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت نظر اور دقت نظر سے حسد و بغض ہے، اس لیے انھیں جب موقع ملتا ہے تو وہ برملا اظہار کرتے ہیں، چنانچہ امین احسن اصلاحی نے کہا ہے۔ ’’امام صاحب نے اتنی اہم روایت کو ایک بے معنی باب سے ڈھانک دیا ہے۔‘‘(تدبر حدیث: 223/1) اسے کہتے ہیں:’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی ۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
125
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
123
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
123
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
123
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑنا کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصے کی وجہ سے لڑتا ہے اور کوئی حمیت کے سبب جنگ کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں: آپ نے اپنا سر مبارک اس لیے اٹھایا تھا کہ وہ کھڑا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ کا بول بالا ہو تو ایسی لڑائی اللہ عزوجل کی راہ میں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے لیے اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے تعظیماً کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2755) نیز آپ نے فرمایا کہ عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرو، کیونکہ وہ تعظیم کی خاطر ایک دوسرے کے لیے کھڑےہوتے ہیں۔ (مسند احمد: 253/5) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر بیٹھے ہوئے عالم سے کوئی شخص کھڑے کھڑے سوال کرتا ہے تو وہ احادیث مذکورہ کے عموم میں داخل نہیں بشرطیکہ خود پسندی اور تکبر کی بنا پر ایسا نہ ہو۔ ہاں اگر عالم دین سائل کو بیٹھنے کی اجازت نہ دے اور وہ چاہے کہ سائل کھڑا ہی رہے ایسا کرنے سے اس کے جذبات کو تسکین ہوتی ہو تو ایسا کرنا درست نہیں لیکن اگر سائل خود بیٹھنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ جلدی کے پیش نظر فوراً جانا چاہتا ہے تو وہ اس وعید کے تحت نہیں آتا جو احادیث میں مذکور ہے۔ (فتح الباري: 292/1) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گزشتہ ایک باب بایں الفاظ قائم کیا تھا ’’امام یا محدث کے آگے دوزانو بیٹھنا‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ سوال یا تحصیل علم کے لیے اطمینان کی نشست اختیار کرنی چاہیے اس عنوان کے پیش نظر گمان ہو سکتا تھا کہ شاید کھڑے ہو کر سوال کرنا درست نہ ہو، آپ نے مذکورہ حدیث سے کھڑے ہو کر سوال کرنے کا جواز ثابت فرما دیا۔ اس جواز کی بنیاد راوی کا یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اس لیے اٹھایا تھا کہ سائل کھڑا تھا، بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں یہ وضاحت کرنے والے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جنھوں نے اپنا مشاہدہ نقل کیا ہے۔ اگر کوئی اور راوی ہے تو بھی استدلال صحیح ہے کیونکہ اس نے مشاہدے کی بنا پر ایسا کہا ہے۔ 3۔ اس حدیث میں لڑائی کے محرکات کا ذکر ہے۔ مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ محرکات مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔ (1) اعلائے کلمۃ اللہ، انتقامی جذبہ، قومی عصبیت۔ یہ تو اسی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، نیز حصول مال و دولت، شہرت و ناموری اور شجاعت و بہادری بھی لڑائی کا سبب ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث: 2810) اس کے علاوہ ہوس، ملک گیری اور قیمتی وسائل پر قبضہ جمانا بھی ہو سکتا ہے۔ ان سب میں قتال فی سبیل اللہ وہ ہو گا۔ جس کے پیش نظر صرف اعلائے کلمۃ اللہ اور غلبہ دین اسلام ہو۔ امام صاحب نے اس حدیث پر کئی ایک عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی ذکاوت فہم اور قوت استنباط پر دلالت کرتے ہیں مثلاً: کتاب الجہاد میں ایک عنوان بایں الفاظ ہے: جو اس لیے لڑتا ہے تاکہ اللہ کا بول بالا ہو۔ ایک دوسرا عنوان یوں قائم کیا: جو حصول غنیمت کے لیے لڑائی کرتا ہے کیا اس سے اجر کم ہو جائے گا؟ کتاب التوحید میں کلمۃ اللہ کی تفسیر میں اس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بندی کے وقت ذخیرہ احادیث پر بھی نظر رکھتے ہیں اور مسائل واحکام کی نزاکتوں کا پورا پو را خیال رکھتے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت نظر اور دقت نظر سے حسد و بغض ہے، اس لیے انھیں جب موقع ملتا ہے تو وہ برملا اظہار کرتے ہیں، چنانچہ امین احسن اصلاحی نے کہا ہے۔ ’’امام صاحب نے اتنی اہم روایت کو ایک بے معنی باب سے ڈھانک دیا ہے۔‘‘(تدبر حدیث: 223/1) اسے کہتے ہیں:’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی ۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ ﷺ نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جب مسلمان اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتا ہے اور غصہ کے ساتھ یا غیرت کے ساتھ جوش میں آ کر لڑتا ہے تو یہ سب اللہ ہی کے لیے سمجھا جائے گا۔ چونکہ یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوئے شخص نے کیا تھا، اسی سے مقصد ترجمہ ثابت ہوا کہ حسب موقع کھڑے کھڑے بھی علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو سر بلند کرنے سے قوانین اسلامیہ و حدود شرعیہ کا جاری کرنا مراد ہے جو سراسر عدل و انصاف و بنی نوع انسان کی خیر خواہی پر مبنی ہیں، ان کے برعکس جملہ قوانین نوع انسان کی فلاح کے خلاف ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): A man came to the Prophet (ﷺ) and asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What kind of fighting is in Allah's cause? (I ask this), for some of us fight because of being enraged and angry and some for the sake of his pride and haughtiness." The Prophet (ﷺ) raised his head (as the questioner was standing) and said, "He who fights so that Allah's Word (Islam) should be superior, then he fights in Allah's cause."