تشریح:
(1) راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں وہ آپ کی کون سی صاجزادی تھیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ تھیں۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2173 (939)) سنن ابن ماجہ میں ہے کہ وہ حضرت ام کلثوم ؓ تھیں۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1458) ممکن ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے دونوں صاجزادیوں کو غسل دیا ہو، کیونکہ مدینہ منورہ میں یہی خاتون عورتوں کو غسل دینے پر مامور تھیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کے شاگرد حضرت ابن سیرین اور ان کی بہن حضرت حفصہ ہیں۔ تابعین میں یہ دونوں میت کے غسل کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے تھے۔ حضرت حسن بصری ؒ کا موقف ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے، جیسا کہ امام بخاری ؒ کے پیش کردہ اثر سے معلوم ہوتا ہے، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے جوزقی کے حوالے سے روایت بیان کی ہے کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا: ہم نے اس صاجزادی کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جن میں اوڑھنی بھی تھی۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے، حضرت لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ ؓ نے فرمایا: میں ان خواتین میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثوم ؓ کی وفات کے وقت انہیں غسل دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہمیں تہبند دیا، پھر کرتا، اس کے بعد اوڑھنی، پھر ایک بڑی چادر اور اس کے بعد ایک دوسری چادر جس میں انہیں لپیٹ دیا گیا۔ حضرت لیلیٰ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنی لخت جگر کا کفن لے کر دروازے کے پاس بیٹھے تھے اور ہمیں ایک ایک کپڑا مرحمت فرماتے تھے۔ (مسند أحمد: 380/6) اس روایت کو امام ابوداود نے بھی كفن المرأة کے عنوان سے اپنی سنن میں بیان کیا ہے (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3157) لیکن یہ روایت انتہائی ضعیف ہے، کیونکہ اس میں نوح بن حکیم ثقفی نامی راوی مجہول ہے جس کی ثقاہت و عدالت ثابت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ علامہ زیلعی نے ایک مزید سبب ضعف بھی بیان کیا ہے کہ اس کی سند میں ایک داود نامی راوی ہے۔ اس کے متعلق پتہ نہیں چل سکا کہ کون ہے؟ علامہ زیلعی نے اس سبب ضعف کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (نصب الرایة: 258/2)
(2) علامہ البانی ؒ نے بھی لکھا ہے کہ کفن کے متعلق مرد اور عورت کا فرق صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ (أحکام الجنائز، ص: 65)