Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: (Is it permissible for) woman to accompany the funeral procession)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1291.
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا، لیکن اس سلسلے میں ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔
تشریح:
(1) طبرانی کی روایت میں مزید تفصیل ہے، حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے تمام خواتین کو ایک گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ پھر حضرت عمر ؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں۔ مجھے نبی ﷺ نے تم سے چند ایک باتوں کے متعلق بیعت لینے کے لیے بھیجا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گی۔ اور آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جوان اور پردہ نشین عورتوں کو عیدگاہ لے کر چلیں اور ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم امتناعی کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ تو ایسی ہیں جن کا ارتکاب حرام ہے اور کچھ ایسی بھی ہیں جن پر عمل کرنا پسندیدہ اور بہتر نہیں۔ ایسی نہی تحریم کے بجائے تنزیہ اور کراہت کے معنی میں ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 186/3) (2) مذکورہ حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے دور کی عورتوں کی کمال عقل ثابت ہوتی ہے کہ وہ باریک بینی کے ساتھ مراتب احکام کو جانتی تھیں۔ حضرت ام عطیہ ؓ نے مراتب نہی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اگرچہ شارع کو مطلوب یہی تھا کہ خواتین جنازوں کے ساتھ نہ نکلیں، البتہ جنازوں کے ساتھ چلنے کے بغیر اگر جنازے میں شرکت کا موقع مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے مسجد میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی نماز جنازہ پڑھی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2252 (973)) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز جنازہ کے لیے کوشش سے شرکت کرنے کی فضیلت صرف مردوں کے لیے ہے، کیونکہ نہی کا تقاضا تحریم یا کم از کم کراہت ہے جبکہ فضیلت سے استحباب ثابت ہوتا ہے، لہذا یہ فضیلت مردوں کے ساتھ خاص ہے، عورتوں کے لیے فضیلت سے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 185/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1246
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1278
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1278
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1278
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا، لیکن اس سلسلے میں ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) طبرانی کی روایت میں مزید تفصیل ہے، حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے تمام خواتین کو ایک گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ پھر حضرت عمر ؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں۔ مجھے نبی ﷺ نے تم سے چند ایک باتوں کے متعلق بیعت لینے کے لیے بھیجا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گی۔ اور آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جوان اور پردہ نشین عورتوں کو عیدگاہ لے کر چلیں اور ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم امتناعی کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ تو ایسی ہیں جن کا ارتکاب حرام ہے اور کچھ ایسی بھی ہیں جن پر عمل کرنا پسندیدہ اور بہتر نہیں۔ ایسی نہی تحریم کے بجائے تنزیہ اور کراہت کے معنی میں ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 186/3) (2) مذکورہ حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے دور کی عورتوں کی کمال عقل ثابت ہوتی ہے کہ وہ باریک بینی کے ساتھ مراتب احکام کو جانتی تھیں۔ حضرت ام عطیہ ؓ نے مراتب نہی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اگرچہ شارع کو مطلوب یہی تھا کہ خواتین جنازوں کے ساتھ نہ نکلیں، البتہ جنازوں کے ساتھ چلنے کے بغیر اگر جنازے میں شرکت کا موقع مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے مسجد میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی نماز جنازہ پڑھی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2252 (973)) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز جنازہ کے لیے کوشش سے شرکت کرنے کی فضیلت صرف مردوں کے لیے ہے، کیونکہ نہی کا تقاضا تحریم یا کم از کم کراہت ہے جبکہ فضیلت سے استحباب ثابت ہوتا ہے، لہذا یہ فضیلت مردوں کے ساتھ خاص ہے، عورتوں کے لیے فضیلت سے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 185/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے ام ہذیل حفصہ بنت سیرین نے، ان سے ام عطیہ ؓ نے بیان کیا کہ ہمیں (عورتوں کو) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔
حدیث حاشیہ:
بہر حال عورتوں کے لیے جنازہ کے ساتھ جانا منع ہے۔ کیونکہ عورتیں ضعیف القلب ہوتی ہیں۔ وہ خلاف شرع حرکات کرسکتی ہیں۔ شارع کی اور بھی بہت سی مصلحتیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um 'Atiyya (RA): We were forbidden to accompany funeral processions but not strictly.