باب:اس بارے میں کہ ایمان میں داخل ہے کہ مسلمان جو اپنے لیےدوست رکھتا ہے وہی چیز اپنے بھائی کے لیے دوست رکھے
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To like for one's (Muslim's) brother what one likes for himself is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
13.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں ایمان کی نفی سے مراد کمال ایمان کی نفی مقصود ہے جیسا کہ عربی زبان میں کہاجاتا ہے: (فلان ليس بإنسان)’’فلاں شخص انسان نہیں ہے۔‘‘ اس سے مراد کامل انسان ہونے کی نفی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جومسلمان دیگرارکان اسلام کاخیال رکھتے ہوئے اس مبارک خصلت کو عمل میں لائے گا وہ مومن کامل ہوگا بصورت دیگر اس کا ایمان ناقص ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہے کہ ایمان کم وبیش ہوتا رہتا ہے۔ (فتح الباري: 80/1) 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسلمان جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتا ہے وہ دوسرے بھائی کے لیے بھی ناپسند کرے۔ اگرچہ حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں، تاہم اس کا متبادر مفہوم یہی ہے کیونکہ کسی چیز سے محبت رکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقیض سے بغض ہو۔ (شرح الکرماني: 95/1) 3۔ اس خصلت کے کئی ایک فوائد ہیں: (الف)۔تکبر ختم ہوگا۔ (ب)۔ اسلامی اخوت پختہ ہوگی۔ (ج)۔ شفقت ورحمت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ (د)۔ حسد کی بیخ کنی ہوگی۔ (ھ) دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کا خوگر ہوگا۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے عنوانات میں اسلام کا لفظ استعمال کیا تھا کیونکہ بیان کردہ امور کا تعلق ظاہری افعال سے تھا جیسا کہ اطعام طعام اورافشائے سلام وغیرہ، لیکن اس باب میں ’’ایمان‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ محبت دل کا فعل ہے، اس لیے اس کی تعبیر میں ایمان ہی کا لفظ موزوں ہے کیونکہ اس کا تعلق بھی دل سے ہے۔ 5۔ یہ حدیث اصلاح معاشرہ کے لیے بہت کیمیا اثر ہے۔ اگر اس حدیث پر عمل کرلیا جائے تو ان تمام فسادات کی جڑ کٹ جائے جو آج یہاں رونما ہو رہے ہیں کیونکہ جب بھی کوئی کسی کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنا چاہتاہے، اس وقت سوچ لیا جائے کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کیا میں اسے پسند کرتا جو خود میں اس کے ساتھ کرناچاہتا ہوں؟ اگراتنی سی سوچ پیدا ہوجائے تودنیا کا تمام فساد نیست ونابود ہوجائے۔ 6۔ مصنف نے اس حدیث کی دو سندیں ذکر کی ہیں: پہلی سند میں شعبہ نے قتادہ سے بصیغہ عن بیان کیا ہے جبکہ دوسری سند میں حسین معلم نے قتادہ سے بیان کرتے ہوئے صیغہ تحدیث (حَدَّثنَاَ) استعمال کیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں کو جمع نہیں کیا بلکہ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اور چونکہ ان کے شیخ نے بھی ایسے ہی ذکر کیا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
13
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
13
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
13
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
13
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں ایمان کی نفی سے مراد کمال ایمان کی نفی مقصود ہے جیسا کہ عربی زبان میں کہاجاتا ہے: (فلان ليس بإنسان)’’فلاں شخص انسان نہیں ہے۔‘‘ اس سے مراد کامل انسان ہونے کی نفی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جومسلمان دیگرارکان اسلام کاخیال رکھتے ہوئے اس مبارک خصلت کو عمل میں لائے گا وہ مومن کامل ہوگا بصورت دیگر اس کا ایمان ناقص ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہے کہ ایمان کم وبیش ہوتا رہتا ہے۔ (فتح الباري: 80/1) 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسلمان جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتا ہے وہ دوسرے بھائی کے لیے بھی ناپسند کرے۔ اگرچہ حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں، تاہم اس کا متبادر مفہوم یہی ہے کیونکہ کسی چیز سے محبت رکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقیض سے بغض ہو۔ (شرح الکرماني: 95/1) 3۔ اس خصلت کے کئی ایک فوائد ہیں: (الف)۔تکبر ختم ہوگا۔ (ب)۔ اسلامی اخوت پختہ ہوگی۔ (ج)۔ شفقت ورحمت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ (د)۔ حسد کی بیخ کنی ہوگی۔ (ھ) دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کا خوگر ہوگا۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے عنوانات میں اسلام کا لفظ استعمال کیا تھا کیونکہ بیان کردہ امور کا تعلق ظاہری افعال سے تھا جیسا کہ اطعام طعام اورافشائے سلام وغیرہ، لیکن اس باب میں ’’ایمان‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ محبت دل کا فعل ہے، اس لیے اس کی تعبیر میں ایمان ہی کا لفظ موزوں ہے کیونکہ اس کا تعلق بھی دل سے ہے۔ 5۔ یہ حدیث اصلاح معاشرہ کے لیے بہت کیمیا اثر ہے۔ اگر اس حدیث پر عمل کرلیا جائے تو ان تمام فسادات کی جڑ کٹ جائے جو آج یہاں رونما ہو رہے ہیں کیونکہ جب بھی کوئی کسی کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنا چاہتاہے، اس وقت سوچ لیا جائے کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کیا میں اسے پسند کرتا جو خود میں اس کے ساتھ کرناچاہتا ہوں؟ اگراتنی سی سوچ پیدا ہوجائے تودنیا کا تمام فساد نیست ونابود ہوجائے۔ 6۔ مصنف نے اس حدیث کی دو سندیں ذکر کی ہیں: پہلی سند میں شعبہ نے قتادہ سے بصیغہ عن بیان کیا ہے جبکہ دوسری سند میں حسین معلم نے قتادہ سے بیان کرتے ہوئے صیغہ تحدیث (حَدَّثنَاَ) استعمال کیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں کو جمع نہیں کیا بلکہ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اور چونکہ ان کے شیخ نے بھی ایسے ہی ذکر کیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حدیث بیان کی مسدد نے، ان کو یحییٰ نے، انھوں نے شعبہ سے نقل کیا، انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس ؓ خادم رسول کریم ﷺ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا۔ اور شعبہ نے حسین معلم سے بھی روایت کیا، انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس ؓ سے، انھوں نے آنحضرت ﷺ سے نقل فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "None of you will have faith till he wishes for his (Muslim) brother what he likes for himself."