تشریح:
1۔ اس حدیث میں ایمان کی نفی سے مراد کمال ایمان کی نفی مقصود ہے جیسا کہ عربی زبان میں کہاجاتا ہے: (فلان ليس بإنسان)’’فلاں شخص انسان نہیں ہے۔‘‘ اس سے مراد کامل انسان ہونے کی نفی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جومسلمان دیگرارکان اسلام کاخیال رکھتے ہوئے اس مبارک خصلت کو عمل میں لائے گا وہ مومن کامل ہوگا بصورت دیگر اس کا ایمان ناقص ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہے کہ ایمان کم وبیش ہوتا رہتا ہے۔ (فتح الباري: 80/1)
2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسلمان جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتا ہے وہ دوسرے بھائی کے لیے بھی ناپسند کرے۔ اگرچہ حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں، تاہم اس کا متبادر مفہوم یہی ہے کیونکہ کسی چیز سے محبت رکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقیض سے بغض ہو۔ (شرح الکرماني: 95/1)
3۔ اس خصلت کے کئی ایک فوائد ہیں: (الف)۔تکبر ختم ہوگا۔ (ب)۔ اسلامی اخوت پختہ ہوگی۔ (ج)۔ شفقت ورحمت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ (د)۔ حسد کی بیخ کنی ہوگی۔ (ھ) دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کا خوگر ہوگا۔
4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے عنوانات میں اسلام کا لفظ استعمال کیا تھا کیونکہ بیان کردہ امور کا تعلق ظاہری افعال سے تھا جیسا کہ اطعام طعام اورافشائے سلام وغیرہ، لیکن اس باب میں ’’ایمان‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ محبت دل کا فعل ہے، اس لیے اس کی تعبیر میں ایمان ہی کا لفظ موزوں ہے کیونکہ اس کا تعلق بھی دل سے ہے۔
5۔ یہ حدیث اصلاح معاشرہ کے لیے بہت کیمیا اثر ہے۔ اگر اس حدیث پر عمل کرلیا جائے تو ان تمام فسادات کی جڑ کٹ جائے جو آج یہاں رونما ہو رہے ہیں کیونکہ جب بھی کوئی کسی کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنا چاہتاہے، اس وقت سوچ لیا جائے کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کیا میں اسے پسند کرتا جو خود میں اس کے ساتھ کرناچاہتا ہوں؟ اگراتنی سی سوچ پیدا ہوجائے تودنیا کا تمام فساد نیست ونابود ہوجائے۔
6۔ مصنف نے اس حدیث کی دو سندیں ذکر کی ہیں: پہلی سند میں شعبہ نے قتادہ سے بصیغہ عن بیان کیا ہے جبکہ دوسری سند میں حسین معلم نے قتادہ سے بیان کرتے ہوئے صیغہ تحدیث (حَدَّثنَاَ) استعمال کیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں کو جمع نہیں کیا بلکہ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اور چونکہ ان کے شیخ نے بھی ایسے ہی ذکر کیا تھا۔