تشریح:
1۔ اخلاقیات کے باب میں حیا ایک قابل تعریف وصف ہے۔ احادیث میں اسے ایمان کا شعبہ قراردیا گیا ہے، نیز یہ کل خیرو برکت ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 157(37)) اس کے نتائج بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انسان اچھی چیز کا استعمال غلط کرتا ہے اور استعمال کی غلطی برے نتائج پیدا کردیتی ہے۔ مثلاً: حیا کو بہانہ بنا کر بعض اوقات علم سے محروم رہتا ہے، اس لیے حیا کا دامن تھامتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بے حیا بن کر سوال نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا اثر ابو نعیم نے الحلیۃ (3/328) میں موصولاً ذکر کیا اور اس کا مطلب ہے کہ حیا کو بطور بہانہ استعمال کرنے والا علم سے محروم رہتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیا اور طلب علم دونوں برقرار رہنے چاہئیں۔ انصار کی عورتیں اسی طرز عمل کو اپنائے ہوئے تھیں۔ یعنی حیا کا دامن بھی برقرار اور علم کا حصول بھی اپنی جگہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں موصولاً مروی ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 748(332)) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیا طالب علم کے لیے محرومی علم کا سبب نہیں بننی چاہیے نیز شرم پر مبنی مسائل دریافت کرنے میں حیا داری کو برقراررکھنا چاہیے گویا حیا بھی باقی رہے اور مقصد برآری بھی ہو جائے۔
2۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اندر حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ حیا تھی کہ انھوں نے مارے شرم کے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ جب عورت کو یہ حالت پیش آجائے تو یہ تقوی اور دینداری کے خلاف تو نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکمل حیاداری کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا کہ عورت اور مرد کے اندر اللہ تعالیٰ نے جوہر رکھا ہے، اس کے اشتراک سے اولاد ہوتی ہے اور اولاد ماں پر باپ پر یا دونوں پر جاتی ہے۔ بے شمار بچے ایسے ہوتے ہیں جو رنگ ماں کا رکھتے ہیں لیکن حلیہ باپ کا ہو تا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ احتلام ہونا ایک فطری حالت ہے تقوی اور دینداری کے خلاف نہیں ہے۔