تشریح:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیا کے متعلق جو عنوان قائم کیا ہے وہ مجمل ہے۔ اس سلسلے میں کوئی صریح حکم بیان نہیں کیا قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔ اس کا مثبت یہ ہے کہ سائل کو علمی مسائل دریافت کرنے کے لیے حیا داری کو قائم رکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جرات و دلیری اور بے باکی مستحسن اقدام نہیں ہے۔ حضرات انصار کی خواتین، حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکمل شرم و حیا کے ساتھ سوالات کر کے تفقہ فی الدین حاصل کیا۔ دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ صفت حیا جو سراسر محمود ہے اسے غلط استعمال کر کے علم سے محرومی کا سامان نہیں کرنا چاہیے حضرت مجاہد کے ارشاد کا یہی مطلب ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ طلب علم کے سلسلے میں حیا کو مستحسن قرار نہیں دیتے اور مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اظہار افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اگر اکابر کی موجودگی کو اپنے بیان کے لیے رکاوٹ خیال کرتے تھے تو وہ کسی دوسرے کو بتا دیتے تاکہ وہ ان کی طرف سے ترجمانی کر دیتا۔ آئندہ باب قائم کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري: 303/1)۔ لیکن حافظ ابن حجر کی وضاحت پر دل مطمئن نہیں ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیا کو مستحسن قراردیتے ہیں۔ انھوں نے حصول علم کے لیے سوال کرنے میں حیا کا استعمال نہیں کیا بلکہ جواب دینے میں حیا داری سے کام لیا ہے، اس لیے کہ بزرگوں کا احترام بھی ہمارے اسلامی آداب کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہاں تک علمی بات معلوم کرنے کا تعلق ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پہیلی کا جواب دیں گے ۔ باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اظہار افسوس، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے ان کی خاموشی کو برا محسوس کیا ہو۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خاموشی غیر مستحسن نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔