تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی اہمیت و مقصدیت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:’’مساجد بول و براز یا گندگی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی تعمیر کا ایک خاص مقصد ہے۔ بےشک وہ مقصد اللہ کا ذکر، نماز اور تلاوت قرآن ہے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 505(661)) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے اغراض و مقاصد کو کلمہ حصر(إِنَّمَا) سے بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں یہی کام ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے کسی شغل کی حیثیت مشتبہ ہو جاتی ہے خواہ وہ تعلیم وافتا ہی سے متعلق ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حصر حقیقی نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں علمی باتیں اور فتاوی وغیرہ کا شغل بھی درست ہے، بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرنا اور دینی مباحثہ کرنا بھی جائز ہے ہاں مساجد میں دنیوی باتیں کرنا اور انھیں بازار کی حیثیت دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ یہ تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد! اب’’امام تدبر‘‘کی بھی سنیے۔ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ’’امام صاحب ہر چیز کو نکتہ بنانے کے عادی ہیں ورنہ کس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم دین اور فتوی کے لیے مسجد موزوں مقام ہے یا نہیں؟ مسجد ہی تو مسلمانوں کے دین کا مرکز ہے۔ مناسک حج کے سلسلہ کی یہ ایک اہم روایت ہے لیکن امام صاحب نے اس سے بس یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علمی سوال مسجد میں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ ( تدبر حدیث: 232/1-234) امام تدبر تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں ہم ان کے تیار کردہ تلامذہ سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مسجد میں علمی سوال کا جواز ہی ثابت نہیں کیا بلکہ کتاب الحج میں اس پر مزید تین عنوان قائم کیے ہیں۔ (1)۔ حج اور عمرہ کے لیے میقات کا تعین (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1522) (2)۔ اہل مدینہ کا میقات (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1525) (3)۔ اہل نجد کے لیے جائے احرام۔(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1528) اس حدیث پر تفصیلی بحث کتاب الحج میں آئے گی۔