تشریح:
(1) ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ مرنے کے بعد بیوی خاوند کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں بیوی خاوند کا رشتہ اتنا کمزور نہیں کہ مرنے کے بعد ختم ہو جائے اور مرد، عورت کے لیے اجنبی بن جائے، اس لیے عورت کی میت کو اس کا خاوند قبر میں اتار سکتا ہے، جیسا کہ حضرت فاطمہ ؓ کی میت کو خود حضرت علی ؓ نے لحد میں اتارا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی حضرت عائشہ ؓ سے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر تو میری موجودگی میں فوت ہوئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور دفن کروں گا۔ (مسند أحمد:144/6) (2) حسب ضرورت دوسرے اجنبی لوگ بھی قبر میں اتارنے کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دفن کا فریضہ صرف مرد ادا کریں گے، خواہ میت عورت ہو (المجموع:253/5 ،254، طبع دار إحیاءالتراث العربي) کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے آج تک مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے، نیز مرد اس عمل کے لیے زیادہ قوی اور حوصلہ مند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر خواتین ایسا کریں تو ان کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو سکتا ہے جو شرعا جائز نہیں۔ والله أعلم۔ (3) امام ابن مبارک نے اپنے شیخ کے حوالے سے لم يقارف کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ مرجوح ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں حضرت ابو طلحہ ؓ کیونکر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ میں نے آج رات کوئی گناہ نہیں کیا، اگرچہ اس معنی کی تائید میں امام بخاری ؒ نے قرآنی آیت کا حوالہ بھی پیش کیا ہے۔