باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں(ہر دو جگہ جائز ہے)
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To offer the funeral Salat (prayer) at the Musalla and at the Mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1342.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ یہودی، نبی ﷺ کے پاس ایک مرد اور عورت کو لے کر آئےجنھوں نے بدکاری کا ارتکاب کیا تھا ۔ آپ نے انھیں رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ مسجد کے پاس جنازے پڑھانے کہ جگہ کے قریب انھیں سنگسار کیا گیا۔
تشریح:
(1) مسجد نبوی کے جنوب میں ایک وسیع میدان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مختلف مقامات پر نماز عید ادا فرمائی۔ بعض اوقات آپ نے نماز استسقاء بھی اسی میدان میں پڑھی ہے۔ حضرت نجاشی کی نماز جنازہ بھی اسی جگہ ادا کی گئی تھی۔ حد رجم بھی اسی میدان میں قائم کی جاتی تھی۔ کتب حدیث میں لفظ مصلی (عید گاہ) کا اطلاق اسی میدان پر ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی میدان کو مسلمانوں کا بازار قرار دیا، اسی پس منظر میں یہ جگہ مناخہ کہلاتی کہ یہاں اونٹوں کے تجارتی قافلے پر پڑاؤ ڈالتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے شارح ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسجد نبوی کے متصل جنازہ پڑھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ (فتح الباري: 254/3) امام بخاری ؒ نے عید گاہ کو شرعی طور پر مسجد کے حکم میں رکھا ہے، کیونکہ عید گاہ میں حائضہ عورتیں الگ بیٹھتی تھیں، جس طرح ان کے لیے مسجد میں جانا جائز نہیں تھا، اسی طرح نماز عید پڑھنے کی جگہ سے بھی وہ الگ رہتی تھیں۔ اس بنا پر جب عیدگاہ میں جنازہ جائز ہے تو مسجد میں بھی اسے جائز ہونا چاہیے۔ (2) امام بخاری نے اس سلسلے میں تین احادیث پیش کی ہیں: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لیے استغفار کرو۔ دوسری حدیث میں وضاحت کی کہ دعائے استغفار سے مراد نماز جنازہ ہے جو عیدگاہ میں ادا کی گئی۔ تیسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد کے قریب ایک جگہ متعین تھی جہاں زنا کاروں کو رجم بھی کیا جاتا تھا۔ ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جنازہ عیدگاہ میں پڑھا جاتا تھا۔ جب عیدگاہ اور مسجد کا حکم ایک ہے تو مسجد میں جنازہ پڑھنے میں چنداں حرج نہیں، لیکن مسجد میں بوقت ضرورت ادا کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2252 (973)) حضرت عمر ؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔ (الموطأ لإمام مالك:230/1) حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ادا کی تھی۔ (المصنف لعبد الرزاق: 526/3، حدیث:657) بہتر ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا، تاہم مسجد میں بھی نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1292
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1329
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1329
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1329
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ یہودی، نبی ﷺ کے پاس ایک مرد اور عورت کو لے کر آئےجنھوں نے بدکاری کا ارتکاب کیا تھا ۔ آپ نے انھیں رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ مسجد کے پاس جنازے پڑھانے کہ جگہ کے قریب انھیں سنگسار کیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسجد نبوی کے جنوب میں ایک وسیع میدان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مختلف مقامات پر نماز عید ادا فرمائی۔ بعض اوقات آپ نے نماز استسقاء بھی اسی میدان میں پڑھی ہے۔ حضرت نجاشی کی نماز جنازہ بھی اسی جگہ ادا کی گئی تھی۔ حد رجم بھی اسی میدان میں قائم کی جاتی تھی۔ کتب حدیث میں لفظ مصلی (عید گاہ) کا اطلاق اسی میدان پر ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی میدان کو مسلمانوں کا بازار قرار دیا، اسی پس منظر میں یہ جگہ مناخہ کہلاتی کہ یہاں اونٹوں کے تجارتی قافلے پر پڑاؤ ڈالتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے شارح ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسجد نبوی کے متصل جنازہ پڑھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ (فتح الباري: 254/3) امام بخاری ؒ نے عید گاہ کو شرعی طور پر مسجد کے حکم میں رکھا ہے، کیونکہ عید گاہ میں حائضہ عورتیں الگ بیٹھتی تھیں، جس طرح ان کے لیے مسجد میں جانا جائز نہیں تھا، اسی طرح نماز عید پڑھنے کی جگہ سے بھی وہ الگ رہتی تھیں۔ اس بنا پر جب عیدگاہ میں جنازہ جائز ہے تو مسجد میں بھی اسے جائز ہونا چاہیے۔ (2) امام بخاری نے اس سلسلے میں تین احادیث پیش کی ہیں: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لیے استغفار کرو۔ دوسری حدیث میں وضاحت کی کہ دعائے استغفار سے مراد نماز جنازہ ہے جو عیدگاہ میں ادا کی گئی۔ تیسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد کے قریب ایک جگہ متعین تھی جہاں زنا کاروں کو رجم بھی کیا جاتا تھا۔ ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جنازہ عیدگاہ میں پڑھا جاتا تھا۔ جب عیدگاہ اور مسجد کا حکم ایک ہے تو مسجد میں جنازہ پڑھنے میں چنداں حرج نہیں، لیکن مسجد میں بوقت ضرورت ادا کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2252 (973)) حضرت عمر ؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔ (الموطأ لإمام مالك:230/1) حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ادا کی تھی۔ (المصنف لعبد الرزاق: 526/3، حدیث:657) بہتر ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا، تاہم مسجد میں بھی نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذرنے بیان کیا‘ ان سے ابو ضمرہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ یہود نبی کریم ﷺ کے حضور میں اپنے ہم مذہب ایک مرد اور عورت کا جنہوں نے زنا کیا تھا‘ مقدمہ لے کر آئے۔ آنحضور ﷺ کے حکم سے مسجد کے نزدیک نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ کے پاس انہیں سنگسار کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
جنازہ کی نماز مسجد میں بلاکر اہت جائز ودرست ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے: أَنَّ عَائِشَةَ، لَمَّا تُوُفِّيَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَتْ: ادْخُلُوا بِهِ الْمَسْجِدَ حَتَّى أُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَأُنْكِرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: «وَاللهِ، لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَيْ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ سُهَيْلٍ وَأَخِيهِ»رواہ مسلم وفي روایة«وَمَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ إِلَّا فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ»رواہ الجماعة إلاالبخاري۔یعنی حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی اس پر نماز جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی رسول اللہ ﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پر نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سہیل بن بیضاء کی نمازجنازہ آنحضرت ﷺ نے مسجد کے بیچوں بیچ ادا فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر ؓ ہر دو کا جنازہ مسجد ہی میں ادا کیا گیا تھا۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی جواز إدخال المیت في المسجد والصلوٰة علیه وفیه وبه قال الشافعي وأحمد وإسحاق والجمهور۔یعنی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ میت کو مسجد میں داخل کرنا اور وہاں اس کا جنازہ پڑھناد رست ہے۔ امام شافعی اور احمد اور اسحاق اور جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ جو لوگ میت کے ناپاک ہونے کا خیال رکھتے ہیں ان کے نزدیک مسجد میں نہ میت کا لانا درست نہ وہاں نماز جنازہ جائز۔ مگر یہ خیال بالکل غلط ہے‘ مسلمان مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوا کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔ إن المؤمن لا ینجس حیا ولامیتا۔بے شک مومن مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوتا۔ یعنی نجاست حقیقی سے وہ دور ہوتا ہے۔ بنو بیضاء تین بھائی تھے۔ سہل وسہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاء کہا گیا۔ اس کا نام دعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ اس بحث کے آخر میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں۔ والحق أنه يجوز الصلاة على الجنائز في المسجد من غير كراهة، والأفضل الصلاة عليها خارج المسجد؛ لأن أكثر صلاته - صلى الله عليه وسلم - على الجنائز كان في المصلى الخ(مرعاة)یعنی حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیونکہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی عدالت میں اگر کوئی غیر مسلم کا کوئی مقدمہ دائر ہو تو فیصلہ بہر حال اسلامی قانون کے تحت کیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے ان یہودی زانیوں کے لیے سنگساری کا حکم اس لیے بھی صادر فرمایا کہ خود تورات میں بھی یہی حکم تھا جسے علماء یہود نے بدل دیا تھا۔ آپ ﷺ نے گویا ان ہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ (صلی اللہ علیه وسلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar : The Jew brought to the Prophet (ﷺ) a man and a woman from amongst them who have committed (adultery) illegal sexual intercourse. He ordered both of them to be stoned (to death), near the place of offering the funeral prayers beside the mosque."