باب: اس بارے میں کہ عورت اور مرد کی نماز جنازہ میں کہاں کھڑا ہوا جائے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Where should the Imam stand while leading the funeral prayer of a female or a male?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1345.
حضرت سمرہ بن جندب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس فوت ہو گئی تھی۔ آپ اس کے وسط میں کھڑے ہوئے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں عورت کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے مگر مرد کے متعلق شاید امام بخاری ؒ کو اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہیں ملی۔ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک مرد اور عورت کا ایک ہی حکم ہو، لیکن حضرت انس بن مالک ؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے سر کے پاس کھڑے ہوئے۔ جب اسے اٹھا لیا گیا تو ایک عورت کا جنازہ لایا گیا، انہوں نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ کسی نے دریافت کیا کہ مرد اور عورت کے جنازے کے لیے جہاں آپ کھڑے ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کھڑے ہوتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3194) (2) علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ جنازہ پڑھتے وقت امام مرد کے سر کے برابر اور عورت کے درمیان میں کھڑا ہو۔ (أحکام الجنائز،ص:138) جو حضرات مرد اور عورت دونوں کے لیے دل کے برابر کھڑے ہونے کے قائل ہیں، ان کا موقف محض قیاس پر مبنی ہے اور صریح دلائل کے خلاف ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1295
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1332
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1332
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1332
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت سمرہ بن جندب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس فوت ہو گئی تھی۔ آپ اس کے وسط میں کھڑے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں عورت کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے مگر مرد کے متعلق شاید امام بخاری ؒ کو اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہیں ملی۔ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک مرد اور عورت کا ایک ہی حکم ہو، لیکن حضرت انس بن مالک ؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے سر کے پاس کھڑے ہوئے۔ جب اسے اٹھا لیا گیا تو ایک عورت کا جنازہ لایا گیا، انہوں نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ کسی نے دریافت کیا کہ مرد اور عورت کے جنازے کے لیے جہاں آپ کھڑے ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کھڑے ہوتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3194) (2) علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ جنازہ پڑھتے وقت امام مرد کے سر کے برابر اور عورت کے درمیان میں کھڑا ہو۔ (أحکام الجنائز،ص:138) جو حضرات مرد اور عورت دونوں کے لیے دل کے برابر کھڑے ہونے کے قائل ہیں، ان کا موقف محض قیاس پر مبنی ہے اور صریح دلائل کے خلاف ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا‘ ان سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہ ہم سے سمرہ بن جندب ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا زچگی کی حالت میں انتقال ہوگیا تھا۔ آپ اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔ سنن ابوداؤد میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مگر امام بخاری ؒ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔ مگر حضرت امام ؒ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں: (وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا) أَيْ إِلَى أَنَّ الْإِمَامَ يَقُومُ حِذَاءَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَحِذَاءَ عَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ (وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ) وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَهُوَ الْحَقُّ وَهُوَ رِوَايَةٌ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ فِي الْهِدَايَةِ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يَقُومُ مِنَ الرَّجُلِ بِحِذَاءِ رَأْسِهِ وَمِنَ الْمَرْأَةِ بِحِذَاءِ وَسَطِهَا لِأَنَّ أَنَسًا فَعَلَ كَذَلِكَ وَقَالَ هُوَ السُّنَّةُ۔(تحفة الأحوذي)یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔ امام احمد ؒ اور اسحق ؒ اور امام شافعی ؒ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس ؓ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Samura bin Jundab I offered the funeral prayer behind the Prophet (ﷺ) for a woman who had died during child-birth and he stood up by the middle of the coffin.