باب: جو شخص ارض مقدس یا ایسی ہی کسی برکت والی جگہ دفن ہونے کا آرزو مند ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Whoever desired to be buried in the Sacred Land)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1352.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ملک الموت کو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو انھوں نے ایک طمانچہ رسید کیا (جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی) فرشتے نے اپنے رب کے پاس جاکر عرض کیا:تونے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست کردی اور فرمایا کہ ان (موسیٰ ؑ ) کے پاس دوبارہ جا کر کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، جتنے بھی بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے تو ہر بال کے بدلے انھیں ایک سال کی زندگی دی جائے گی۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نےکہا:اے پروردگار !پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:پھر مرنا ہوگا۔ موسیٰ ؑ نےکہا: تو پھر ابھی آجائے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایک پتھر پھینکنے کی مقدار کے برابر ارض مقدس سے قریب کردے۔ راوی حدیث (حضرت ابو ہریرہ ؓ ) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر میں وہاں ہوتا تو موسیٰ ؑ کی قبر سرخ ٹیلے کے پاس راستے کے کنارے پر تمھیں دکھادیتا ۔‘‘
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے عنوان میں نحوها کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے مراد باقی ماندہ وہ مقدس مقامات ہیں جن کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہے، مثلا: حرم مکہ اور حرم مدینہ وغیرہ اور ایسے ہی مدافن انبیاء اور قبور اولیاء و شہداء ہیں، ان کے قرب و جوار سے رحمت و برکت کی امید کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی اقتدا ہے۔ (فتح الباري:264/3) ہمارے نزدیک جہاں تک ارض مقدس اور سرزمین حرمین میں دفن ہونے کی تمنا ہے، یہ تو ہر مومن کے ایمان کا تقاضا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے اللہ کے حضور عرض کیا تھا: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے موت تیرے رسول کے شہر (مدینہ) میں آئے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1890) لیکن مدافن شہداء اور مقابر اولیاء کے قرب و جوار میں رحمت و برکت کی امید کرتے ہوئے دفن ہونے کی تمنا کرنا اس سے ہمیں اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک و بدعت کا چور دروازہ کھلتا ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لیے پہلے ایمان، پھر علم و عمل صالح نہایت ضروری ہے۔ ان کے بغیر کسی ارض مقدس میں دفن ہونے کی تمنا کرنا فضول اور بےکار ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب دجال آئے گا تو مدینہ منورہ منافقین سے بھرا ہو گا اور اسے تین جھٹکے لگیں گے جس سے تمام کافر اور منافق مدینے سے نکل کر دجال کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1881 و صحیح مسلم ، الفتن، حدیث:7390(2943)) (2) اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بقعہ مبارکہ (بابرکت جگہ) کی حرمت و تقدیس ایمان و عمل کے بغیر نفع بخش ثابت نہیں ہو گی۔ ان کے بغیر ارض مقدس یا غیر ارض مقدس میں دفن ہونا برابر ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو خط لکھا کہ آپ ہماری ارض مقدس میں آ جائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سرزمین انسان کی پاکیزگی کا ذریعہ نہیں بن سکتی، بلکہ نیک عمل انسان کو ضرور مقدس بنا دیتا ہے۔ (الموطأ للإمام مالك، الوصیة، حدیث:1524) لیکن ایمان و اعمال صالحہ کے ساتھ کسی بھی ارض مقدس میں دفن ہونے کی خواہش کرنا مطلوب عین ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس فرق کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک نہایت ہی جلیل القدر اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ کے عمل اور تمنا کو پیش کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس خواہش کا اظہار اس لیے کیا تھا کہ انہیں حضرات انبیاء کا قرب حاصل ہو جائے جو بیت المقدس میں مدفون ہیں۔ اس رائے کو قاضی عیاض نے ترجیح دی ہے۔ البتہ علامہ مہلب نے فرمایا ہے کہ آپ نے جوار انبیاء میں دفن ہونے کی تمنا اس لیے کی تھی کہ میدان حشر کے قریب ہو جائیں اور اس مشقت سے بچ جائیں جو دور رہنے کی صورت میں پیش آ سکتی ہے، کیونکہ سرزمین شام ہی نے میدان محشر کی شکل اختیار کرنی ہے۔ (فتح الباري:264/3) (3) حافظ ابن حجر ؒ نے پتھر پھینکے کی قدر مسافت کے متعلق لکھا ہے کہ مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ وہاں کھڑے ہو کر اگر پتھر پھینکا جائے تو ارض مقدس میں جا گرے، اس کا راز یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر ارض مقدس کو حرام کر دیا تھا اور انہیں وادی تیہ میں چالیس سال تک بھٹکنے رہنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کی وفات ہوئی۔ چونکہ غلبہ جبارین کی وجہ سے ارض مقدس میں نہ جا سکے تھے، اس لیے آخر وقت تمنا کی کہ جتنا بھی ارض مقدس کے قریب ہو سکیں غنیمت ہے، کیونکہ قریب شے کا حکم بھی عین چیز کا حکم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:264/3) (4) حضرت موسیٰ ؑ کے ملک الموت کو طمانچہ مارنے اور ان کی آنکھ پھوڑ دینے پر منکرین اور ملحدین کے جو اعتراضات ہیں انہیں ہم حدیث: 3407 کے فوائد میں ذکر کریں گے اور وہاں ان کا شافی جواب بھی دیا جائے گا۔ بإذن الله۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے پیش نظر مترجم کی مناجات حسب ذیل ہے:
آرزو ہے دل میں مجھے نصیب کب وہ دن ہو... مروں میں مدینے میں اور بقیع میرا مدفن ہو
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1302
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1339
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1339
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1339
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ملک الموت کو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو انھوں نے ایک طمانچہ رسید کیا (جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی) فرشتے نے اپنے رب کے پاس جاکر عرض کیا:تونے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست کردی اور فرمایا کہ ان (موسیٰ ؑ ) کے پاس دوبارہ جا کر کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، جتنے بھی بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے تو ہر بال کے بدلے انھیں ایک سال کی زندگی دی جائے گی۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نےکہا:اے پروردگار !پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:پھر مرنا ہوگا۔ موسیٰ ؑ نےکہا: تو پھر ابھی آجائے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایک پتھر پھینکنے کی مقدار کے برابر ارض مقدس سے قریب کردے۔ راوی حدیث (حضرت ابو ہریرہ ؓ ) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر میں وہاں ہوتا تو موسیٰ ؑ کی قبر سرخ ٹیلے کے پاس راستے کے کنارے پر تمھیں دکھادیتا ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے عنوان میں نحوها کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے مراد باقی ماندہ وہ مقدس مقامات ہیں جن کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہے، مثلا: حرم مکہ اور حرم مدینہ وغیرہ اور ایسے ہی مدافن انبیاء اور قبور اولیاء و شہداء ہیں، ان کے قرب و جوار سے رحمت و برکت کی امید کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی اقتدا ہے۔ (فتح الباري:264/3) ہمارے نزدیک جہاں تک ارض مقدس اور سرزمین حرمین میں دفن ہونے کی تمنا ہے، یہ تو ہر مومن کے ایمان کا تقاضا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے اللہ کے حضور عرض کیا تھا: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے موت تیرے رسول کے شہر (مدینہ) میں آئے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1890) لیکن مدافن شہداء اور مقابر اولیاء کے قرب و جوار میں رحمت و برکت کی امید کرتے ہوئے دفن ہونے کی تمنا کرنا اس سے ہمیں اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک و بدعت کا چور دروازہ کھلتا ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لیے پہلے ایمان، پھر علم و عمل صالح نہایت ضروری ہے۔ ان کے بغیر کسی ارض مقدس میں دفن ہونے کی تمنا کرنا فضول اور بےکار ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب دجال آئے گا تو مدینہ منورہ منافقین سے بھرا ہو گا اور اسے تین جھٹکے لگیں گے جس سے تمام کافر اور منافق مدینے سے نکل کر دجال کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1881 و صحیح مسلم ، الفتن، حدیث:7390(2943)) (2) اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بقعہ مبارکہ (بابرکت جگہ) کی حرمت و تقدیس ایمان و عمل کے بغیر نفع بخش ثابت نہیں ہو گی۔ ان کے بغیر ارض مقدس یا غیر ارض مقدس میں دفن ہونا برابر ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو خط لکھا کہ آپ ہماری ارض مقدس میں آ جائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سرزمین انسان کی پاکیزگی کا ذریعہ نہیں بن سکتی، بلکہ نیک عمل انسان کو ضرور مقدس بنا دیتا ہے۔ (الموطأ للإمام مالك، الوصیة، حدیث:1524) لیکن ایمان و اعمال صالحہ کے ساتھ کسی بھی ارض مقدس میں دفن ہونے کی خواہش کرنا مطلوب عین ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس فرق کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک نہایت ہی جلیل القدر اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ کے عمل اور تمنا کو پیش کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس خواہش کا اظہار اس لیے کیا تھا کہ انہیں حضرات انبیاء کا قرب حاصل ہو جائے جو بیت المقدس میں مدفون ہیں۔ اس رائے کو قاضی عیاض نے ترجیح دی ہے۔ البتہ علامہ مہلب نے فرمایا ہے کہ آپ نے جوار انبیاء میں دفن ہونے کی تمنا اس لیے کی تھی کہ میدان حشر کے قریب ہو جائیں اور اس مشقت سے بچ جائیں جو دور رہنے کی صورت میں پیش آ سکتی ہے، کیونکہ سرزمین شام ہی نے میدان محشر کی شکل اختیار کرنی ہے۔ (فتح الباري:264/3) (3) حافظ ابن حجر ؒ نے پتھر پھینکے کی قدر مسافت کے متعلق لکھا ہے کہ مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ وہاں کھڑے ہو کر اگر پتھر پھینکا جائے تو ارض مقدس میں جا گرے، اس کا راز یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر ارض مقدس کو حرام کر دیا تھا اور انہیں وادی تیہ میں چالیس سال تک بھٹکنے رہنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کی وفات ہوئی۔ چونکہ غلبہ جبارین کی وجہ سے ارض مقدس میں نہ جا سکے تھے، اس لیے آخر وقت تمنا کی کہ جتنا بھی ارض مقدس کے قریب ہو سکیں غنیمت ہے، کیونکہ قریب شے کا حکم بھی عین چیز کا حکم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:264/3) (4) حضرت موسیٰ ؑ کے ملک الموت کو طمانچہ مارنے اور ان کی آنکھ پھوڑ دینے پر منکرین اور ملحدین کے جو اعتراضات ہیں انہیں ہم حدیث: 3407 کے فوائد میں ذکر کریں گے اور وہاں ان کا شافی جواب بھی دیا جائے گا۔ بإذن الله۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے پیش نظر مترجم کی مناجات حسب ذیل ہے:
آرزو ہے دل میں مجھے نصیب کب وہ دن ہو... مروں میں مدینے میں اور بقیع میرا مدفن ہو
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ملک الموت ( آدمی کی شکل میں ) موسی ؑ کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ ؑ نے ( نہ پہچان کر ) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کردی اور فرمایا کہ دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھئے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آجائیں ان کے ہر بال کے بدلے ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔ ( موسیٰ ؑ تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا تو ) آپ نے کہا کہ اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ ؑ بولے تو ابھی کیوں نہ آجائے۔ پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایک پتھر کی مار پر ارض مقدس سے قریب کردیا جائے۔ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے۔
حدیث حاشیہ:
بیت المقدس ہویا مکہ مدینہ ایسے مبارک مقامات میں دفن ہونے کی آرزو کرنا جائز ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The angel of death was sent to Moses (ؑ) and when he went to him, Moses (ؑ) slapped him severely, spoiling one of his eyes. The angel went back to his Lord, and said, "You sent me to a slave who does not want to die." Allah restored his eye and said, "Go back and tell him (i.e. Moses (ؑ)) to place his hand over the back of an ox, for he will be allowed to live for a number of years equal to the number of hairs coming under his hand." (So the angel came to him and told him the same). Then Moses (ؑ) asked, "O my Lord! What will be then?" He said, "Death will be then." He said, "(Let it be) now." He asked Allah that He bring him near the Sacred Land at a distance of a stone's throw. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Were I there I would show you the grave of Moses (ؑ) by the way near the red sand hill."