باب: کہ میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Can the dead body be taken out of its grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1365.
حضرت جابر ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میرے والد گرامی کے ہمراہ ایک اور شہید بھی دفن کیا گیا تھا، لیکن میری طبیعت کو یہ پسندنہ آیا، اس لیے میں نے انھیں نکالا اور علیحدہ قبر میں دفن کردیا۔
تشریح:
قبل ازیں حدیث میں تھا کہ حضرت جابر ؓ نے چھ ماہ بعد اپنے والد گرامی کی قبر کو کھولا اور انہیں وہاں سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جبکہ ایک روایت میں ہے کہ ان کے والد گرامی حضرت عبداللہ بن عمرو اور عمرو بن جموح ؓ کی قبر کو سیلاب نے کرید دیا تھا جبکہ وہ دونوں ایک ہی قبر میں تھے، انہیں منتقل کرنے کے لیے جب قبر کشائی کی گئی تو وہ ذرہ بھر بھی متاثر نہ ہوئے تھے، حتی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کے جسم میں کوئی زخم تھا اور وفات کے وقت ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا، انہیں اسی طرح دفن کر دیا گیا تھا۔ جب قبر سے انہیں نکالا گیا اور ان کا ہاتھ اس جگہ سے ہٹایا گیا پھر اسے چھوڑا گیا تو وہ خود بخود اپنی پہلی جگہ پر پہنچ گیا۔ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی کل فوت ہوئے ہیں، حالانکہ واقعہ اُحد اور قبر کشائی کے درمیان چھیالیس سال کا فاصلہ تھا۔ (الموطأ للإمام مالك، الجھاد، حدیث:1044) دونوں روایات میں ان کا ایک ہی قبر میں ہونے کا ذکر ہے تو اس کی تطبیق یہ ہے کہ حضرت جابر ؓ نے اپنے والد گرامی اور عمرو بن جموح ؓ کی قبر کو دو مرتبہ کھولا ہو گا، ایک چھ ماہ بعد غالبا اس وقت رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی ہو گی کیونکہ اس وقت رسول اللہ ﷺ حیات تھے۔ اس کے بعد ان کی قبروں کو قریب قریب رکھا گیا، کیونکہ ان دونوں میں بہت گہرا تعلق تھا، پھر سیلاب وغیرہ نے ان کی قبروں کو کرید کر ایک کر دیا۔ پھر حضرت امیر معاویہ ؓ نے اس جگہ پانی کا ایک چشمہ جاری کیا تو حضرت جابر ؓ کو دوبارہ تشویش لاحق ہوئی کہ مبادا ان کی لاشیں پانی میں بہہ جائیں، اس وجہ سے انہوں نے مدت دراز کے بعد دوبارہ قبر کشائی کی تو دیکھا کہ دونوں کے جسم بدستور اپنی حالت میں تھے۔ (فتح الباري:276/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1315
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1352
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1352
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1352
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت جابر ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میرے والد گرامی کے ہمراہ ایک اور شہید بھی دفن کیا گیا تھا، لیکن میری طبیعت کو یہ پسندنہ آیا، اس لیے میں نے انھیں نکالا اور علیحدہ قبر میں دفن کردیا۔
حدیث حاشیہ:
قبل ازیں حدیث میں تھا کہ حضرت جابر ؓ نے چھ ماہ بعد اپنے والد گرامی کی قبر کو کھولا اور انہیں وہاں سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جبکہ ایک روایت میں ہے کہ ان کے والد گرامی حضرت عبداللہ بن عمرو اور عمرو بن جموح ؓ کی قبر کو سیلاب نے کرید دیا تھا جبکہ وہ دونوں ایک ہی قبر میں تھے، انہیں منتقل کرنے کے لیے جب قبر کشائی کی گئی تو وہ ذرہ بھر بھی متاثر نہ ہوئے تھے، حتی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کے جسم میں کوئی زخم تھا اور وفات کے وقت ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا، انہیں اسی طرح دفن کر دیا گیا تھا۔ جب قبر سے انہیں نکالا گیا اور ان کا ہاتھ اس جگہ سے ہٹایا گیا پھر اسے چھوڑا گیا تو وہ خود بخود اپنی پہلی جگہ پر پہنچ گیا۔ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی کل فوت ہوئے ہیں، حالانکہ واقعہ اُحد اور قبر کشائی کے درمیان چھیالیس سال کا فاصلہ تھا۔ (الموطأ للإمام مالك، الجھاد، حدیث:1044) دونوں روایات میں ان کا ایک ہی قبر میں ہونے کا ذکر ہے تو اس کی تطبیق یہ ہے کہ حضرت جابر ؓ نے اپنے والد گرامی اور عمرو بن جموح ؓ کی قبر کو دو مرتبہ کھولا ہو گا، ایک چھ ماہ بعد غالبا اس وقت رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی ہو گی کیونکہ اس وقت رسول اللہ ﷺ حیات تھے۔ اس کے بعد ان کی قبروں کو قریب قریب رکھا گیا، کیونکہ ان دونوں میں بہت گہرا تعلق تھا، پھر سیلاب وغیرہ نے ان کی قبروں کو کرید کر ایک کر دیا۔ پھر حضرت امیر معاویہ ؓ نے اس جگہ پانی کا ایک چشمہ جاری کیا تو حضرت جابر ؓ کو دوبارہ تشویش لاحق ہوئی کہ مبادا ان کی لاشیں پانی میں بہہ جائیں، اس وجہ سے انہوں نے مدت دراز کے بعد دوبارہ قبر کشائی کی تو دیکھا کہ دونوں کے جسم بدستور اپنی حالت میں تھے۔ (فتح الباري:276/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے‘ ان سے ابن ابی نجیح نے‘ ان سے عطاءبن ابی رباح اور ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ میرے باپ کے ساتھ ایک ہی قبر میں ایک اور صحابی ( حضرت جابر ؓ کے چچا ) دفن تھے۔ لیکن میرا دل اس پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے میں نے ان کی لاش نکال کر دوسری قبر میں دفن کردی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): A man was buried along with my father and I did not like it till I took him (i.e. my father) out and buried him in a separate grave.