تشریح:
(1) اگرچہ خودکشی کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ وہ جہنم میں رہے، لیکن اللہ تعالیٰ اہل توحید پر رحم و کرم فرمائے گا اور اس توحید کی برکت سے اسے آخرکار جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ خودکشی کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نارجہنم میں رہے گا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:300(109)) ان اضافی الفاظ سے معتزلہ وغیرہ نے استدلال کیا ہے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔ اہل سنت کی طرف سے کئی ایک جواب دیے گئے ہیں، جیسا کہ درج ذیل تفصیل سے واضح ہوتا ہے۔ امام ترمذی ؒ نے اس اضافے کو بعض راویوں کا وہم قرار دیا ہے۔ (جامع الترمذي، الطب، حدیث:2044) دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اہل توحید گناہ گاروں کو کچھ مدت کے بعد جہنم سے نجات مل جائے گی اور وہ کفار و مشرکین کی طرح ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے، البتہ اگر کوئی اقدام خودکشی کو حلال سمجھ کر کرے گا تو وہ ضرور کفار کی طرح ہمیشہ جہنم میں رہے گا، کیونکہ کسی حرام فعل کو حلال خیال کرنا کفر ہے اور اس کی سزا ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے۔ اس سے حقیقت مراد نہیں بلکہ اس فعل کی شناعت اور قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے بطور تہدید و سختی یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اس فعل کی سزا تو خلود جہنم ہی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ موحدین کی عزت کرتے ہوئے انہیں جہنم سے نکال دے گا۔ خلود سے مراد مدت طویل اور عرصہ دراز ہے، حقیقی خلود مراد نہیں جو کفار کے لیے خاص ہے۔ آخری توجیہ زیادہ صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:289/3) (2) ہمارے نزدیک اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنا حشر کے بعد نہیں بلکہ حشر سے پہلے عالم برزخ میں ہے۔ معنی یہ ہیں کہ خودکشی کرنے والے کو حشر تک ایسا ہی عذاب ہو گا۔ والله أعلم۔ بہرحال یہ اجماعی مسئلہ ہے کہ خودکشی کرنے والا ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا اور اس کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے، مگر لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے علماء اور مقتدا حضرات اس کی نماز جنازہ سے اجتناب کریں۔