تشریح:
(1) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اہل قلیب کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بےشک یہ مردار، اب میں جو کچھ انہیں کہتا ہوں اسے سنتے ہیں۔‘‘ لیکن حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کہا تھا بلکہ فرمایا تھا کہ اب انہیں پتہ چل گیا ہے میں جو کہتا تھا وہ حق تھا، پھر انہوں نے آیت کریمہ تلاوت کی: ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘ (صحیح البخاریةي، المغازي، حدیث:3980) (2) امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث، پھر اس کے معارض حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کو عذاب قبر کے عنوان میں اس لیے درج کیا ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اہل قلیب نے رسول اللہ ﷺ کی بات اور آپ کی ڈانٹ ڈپٹ کو اپنے کانوں سے سنا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ حواس سے عذاب کا احساس ثابت ہوا۔ اور آپ نے ان سے اس وقت گفتگو کی جب فرشتے ان سے سوال و جواب کر رہے تھے اور اس وقت ان میں اعادہ روح بھی ہو چکا تھا۔ اور سوال و جواب کے وقت انہیں عذاب بھی دیا جاتا ہے، اس بنا پر ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث کا مطلب ہے کہ آپ نے اس وقت ان سےگفتگو کی جب فرشتے ان سے سوال جواب کر رہے تھے۔ اور حضرت عائشہ ؓ کا انکار سوال و جواب کے علاوہ کسی دوسرے وقت پر محمول کیا جائے، یعنی سوال و جواب کے وقت کفار قریش کے لیے سماع اور علم دونوں ثابت ہیں اور سوال و جواب کے وقت کے علاوہ صرف علم تو ثابت ہے لیکن سماع ثابت نہیں۔ (فتح الباري:299/3) والله أعلم۔ (3) سماع موتیٰ کا مسئلہ کتاب المغازی (حدیث: 3976) میں بیان کیا جائے گا۔