تشریح:
(1) اس آواز کے متعلق تین احتمال ہیں: ٭ ملائکہ عذاب کی آواز تھی۔ ٭ یہودیوں کی آواز تھی جنہیں عذاب دیا جا رہا تھا۔ ٭ خود عذاب کی آواز تھی۔ چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں وضاحت ہے، حضرت ابو ایوب ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غروب آفتاب کے بعد نکلا، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا، رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ واپس آئے تو میں نے آپ کو وضو کرایا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’تو کوئی آواز سنتا ہے جیسے میں سن رہا ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں یہود کی آوازیں سن رہا ہوں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘ (المعجم الکبیرللطبراني:120/4 ،121، حدیث:3857، طبع دارإحیاءالتراث العربي، و فتح الباري:306/3) (2) مصنف نے حسب عادت یہ ثابت کیا ہے کہ ایسے مواقع پر اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے، نیز جب یہودیوں کے لیے عذاب قبر ثابت ہوا تو مشرکین کے لیے بھی ہو گا، کیونکہ ان کا کفر یہودیوں کے کفر سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ (3) مصنف نے اس حدیث کے بعد حضرت نضر کے حوالے سے اس کی ایک دوسری سند بیان کی ہے جس میں عون کی اپنی باپ سے اور ان کے باپ کی حضرت براء بن عازب ؓ سے تصریح سماع ہے۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند میں اس کا متن بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ یہود ہیں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘