Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: What is said about committing suicide)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1377.
حضرت حسن بصری ؒ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:ہمیں حضرت جندب ؓ نے اس مسجد میں حدیث بیان کی جسے ہم بھولے نہیں اور نہ ہمیں یہ اندیشہ ہی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ پر جھوٹ بولا ہوگا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نےفرمایا:’’ایک شخص کو زخم لگ گیا تھا اس نے خود کو قتل کرڈالا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:چونکہ میرے بندے نے مجھ سے سبقت چاہی، لہذا میں نے اس پر جنت کوحرام کردیا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’تم سے پہلے ایک آدمی کو زخم لگا تو وہ گھبرا اٹھا۔ اس نے چھری لے کر اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس کا خون بند نہ ہوا حتی کہ وہ مر گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے مجھ سے سبقت چاہی، اس لیے میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3463) خودکشی کرنے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے مجھ سے جلدی کی اور صبر نہ کیا ورنہ میں خود اسے موت دیتا۔ یہ ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اس کی موت بھی اپنے مقررہ وقت ہی پر ہوئی ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ صبر و ہمت سے کام لیتا اور اپنی موت کو پروردگار کے حوالے کرتا، لیکن اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے موت کے وقت سے اسے مطلع نہیں کیا تھا، لہذا اس سزا کا حقدار ٹھہرا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ (2) اگر وہ خودکشی کو جائز اور حلال سمجھتا تھا تو اس کی سزا دائمی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اس پر جنت حرام ہو گی۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اسے تہدید و تغلیظ پر محمول کیا جائے، کیونکہ جنت کافر پر حرام ہے اور خودکشی کرنے والا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ مذکورہ حدیث بھی اس کے کفر پر دلالت نہیں کرتی۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1325.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1364
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1364
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1364
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت حسن بصری ؒ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:ہمیں حضرت جندب ؓ نے اس مسجد میں حدیث بیان کی جسے ہم بھولے نہیں اور نہ ہمیں یہ اندیشہ ہی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ پر جھوٹ بولا ہوگا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نےفرمایا:’’ایک شخص کو زخم لگ گیا تھا اس نے خود کو قتل کرڈالا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:چونکہ میرے بندے نے مجھ سے سبقت چاہی، لہذا میں نے اس پر جنت کوحرام کردیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’تم سے پہلے ایک آدمی کو زخم لگا تو وہ گھبرا اٹھا۔ اس نے چھری لے کر اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس کا خون بند نہ ہوا حتی کہ وہ مر گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے مجھ سے سبقت چاہی، اس لیے میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3463) خودکشی کرنے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے مجھ سے جلدی کی اور صبر نہ کیا ورنہ میں خود اسے موت دیتا۔ یہ ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اس کی موت بھی اپنے مقررہ وقت ہی پر ہوئی ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ صبر و ہمت سے کام لیتا اور اپنی موت کو پروردگار کے حوالے کرتا، لیکن اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے موت کے وقت سے اسے مطلع نہیں کیا تھا، لہذا اس سزا کا حقدار ٹھہرا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ (2) اگر وہ خودکشی کو جائز اور حلال سمجھتا تھا تو اس کی سزا دائمی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اس پر جنت حرام ہو گی۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اسے تہدید و تغلیظ پر محمول کیا جائے، کیونکہ جنت کافر پر حرام ہے اور خودکشی کرنے والا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ مذکورہ حدیث بھی اس کے کفر پر دلالت نہیں کرتی۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور حجاج بن منہال نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا‘ ان سے امام حسن بصری نے کہا کہ ہم سے جندب بن عبداللہ بجلی ؓ نے اسی ( بصرے کی ) مسجد میں حدیث بیان کی تھی نہ ہم اس حدیث کو بھولے ہیں اور نہ یہ ڈر ہے کہ جندب ؓ نے رسول اللہ ﷺ جھوٹ باندھا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کو زخم لگا۔ اس نے ( زخم کی تکلیف کی وجہ سے ) خود کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں جنت حرام کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jundab the Prophet (ﷺ) said, "A man was inflicted with wounds and he committed suicide, and so Allah said: My slave has caused death on himself hurriedly, so I forbid Paradise for him."