قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوُضُوءِ (بَابُ التَّخْفِيفِ فِي الوُضُوءِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

138. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلم نَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ صَلَّى - وَرُبَّمَا قَالَ: اضْطَجَعَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى - ثُمَّ حَدَّثَنَا بِهِ سُفْيَانُ، مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ عَنْ عَمْرٍو، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ لَيْلَةً فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَتَوَضَّأَ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوءًا خَفِيفًا يُخَفِّفُهُ - عَمْرٌو وَيُقَلِّلُهُ -، وَقَامَ يُصَلِّي، فَتَوَضَّأْتُ نَحْوًا مِمَّا تَوَضَّأَ، ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ، عَنْ يَسَارِهِ - وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ عَنْ شِمَالِهِ - فَحَوَّلَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ صَلَّى مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ أَتَاهُ المُنَادِي فَآذَنَهُ بِالصَّلاَةِ، فَقَامَ مَعَهُ إِلَى الصَّلاَةِ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ» قُلْنَا لِعَمْرٍو إِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَنَامُ عَيْنُهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ» قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ: رُؤْيَا الأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ، ثُمَّ قَرَأَ {إِنِّي أَرَى فِي المَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ} [الصافات: 102]

مترجم:

138.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ سوئے، یہاں تک کہ خراٹے بھرنے لگے، پھر آپ نے (بیدار ہو کر) نماز پڑھی، کبھی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: نبی ﷺ کروٹ پر لیٹے، یہاں تک کہ سانس کی آواز آنے لگی، پھر بیدار ہو کر آپ نے نماز پڑھی۔ پھر حضرت سفیان نے اس روایت کو دوبارہ تفصیل سے بیان کیا کہ ابن عباسؓ نے فرمایا: میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رات گزاری۔ نبی ﷺ رات کے کسی حصے میں بیدار ہوئے۔ جب کچھ رات گزر گئی تو آپ کھڑے ہوئے اور لٹکتے ہوئے مشکیزے سے ہلکا وضو فرمایا۔ عمرو (راوی) اس (وضو) کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتا ہے۔ اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی آپؐ ہی کی طرح وضو کیا، پھر میں آ کر آپؐ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ سفیان نے کبھی یسار کے بجائے شمال کا لفظ استعمال کیا۔ آپؐ نے مجھے پھیرا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ پھر آپؐ نے جس قدر اللہ کی توفیق میسر آئی، (تہجد کی) نماز ادا فرمائی، پھر کروٹ کے بل لیٹ کر سو گئے حتیٰ کہ خراٹے بھرنے لگے۔ پھر مؤذن آیا اور اس نے آپؐ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپؐ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ آپؐ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا۔ (سفیان کہتے ہیں) ہم نے (اپنے استاد) عمرو سے کہا: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نیند کا اثر رسول اللہ ﷺ کے دل پر نہیں، بلکہ صرف آنکھ پر ہوتا تھا۔ عمرو نے جواب دیا: میں نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے سنا ہے کہ حضرات انبیاء ؑ کے خواب وحی ہوتے ہیں، پھر درج ذیل آیت کو بطور دلیل تلاوت فرمایا: ’’میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔‘‘