تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی دو اقسام بیا ن کی ہیں:1۔ وضوئے خفیف۔ 2۔ وضوئے تام۔ وضوئے خفیف کی دو صورتیں ہیں:(الف)۔ اعضائے وضو کا ایک ایک بار دھونا۔ یہ وضو کا ادنیٰ درجہ ہے۔ (ب)۔ اعضائے وضو کو اچھی طرح دھونے کے بجائے صرف پانی بہا لیا جائے۔ وضوئے طعام اور وضوئے نوم کو بھی ہلکا وضو کہا جاتا ہے۔ وضوئے تام کی ایک ہی صورت ہے کہ اعضائے وضو کوتین تین بار اچھی طرح دھویا جائے۔ اس کی تفصیل آئندہ باب میں بیان ہوگی، نیز راوی حدیث نے وضوئے خفیف کے لیے دولفظ استعمال کیے ہیں۔ (ج)۔ تخفیف۔ اس سے کیفیت، یعنی میعار کی طرف اشارہ ہے پانی کے خرچ کے اعتبار سے تخفیف ہے۔ (د)۔ تقلیل۔ اس سے کمیت، یعنی مقدار کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک ایک مرتبہ دھونا، تقلیل ہے۔ لیکن وضوئے خفیف کی تفسیر احادیث میں بایں طور ہے کہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں، آپ نے بہترین وضو فرمایا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4571) دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے درمیانی طریقے سے وضو فرمایا، بکثرت پانی بھی نہیں بہایا، تمام اعضاء تک پانی بھی اچھی طرح پہنچایا۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6316) ان احادیث سے وضوئے خفیف کی تفسیر ہوتی ہے۔
2۔ جب حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے بیدار ہو کر وضو کیے بغیر نماز ادا کی تو تلامذہ میں سے کسی نے راوی حدیث حضرت عمرو سے پوچھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سوتی ہیں لیکن دل مبارک بیدار رہتا ہے، تو اس کی کیا حقیقت ہے؟ انھوں نے کہا:جب انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں اوروحی کا یاد رکھنا اور اس کی حفاظت دل کی بیداری پر موقوف ہے، اگر دل بیدار نہ ہوگا تو پھر وحی کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ جب وحی محفوظ نہ رہی ہو تو وہ شریعت کا مدار بھی نہیں بن سکے گی تو معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہ السلام کے قلوب نیند میں بھی بیدار رہتے ہیں اور جب دل بیدار رہتا ہے تو وہ بدستور نیند کی حالت میں بھی ادراک کرتا رہے گا، لہذا محض نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، البتہ اگرریح کا خروج ہو تو وضو جاتا رہے گا۔ یہ وجہ ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کے بعد وضو فرمایا۔ اور مدار نقض بحالت نیند حقیقی خروج ہے نہ کہ صرف مظنہ خروج کیونکہ یہ عام لوگوں کے حق میں ہے۔ اس کی تائید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک خواب اور اس کے مطابق عملی اقدام پیش کیا گیا ہے، یعنی اگر انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی کے حکم میں نہ ہوتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب کی بنیاد پر ایک ایسے اقدام کے لیے تیار نہ ہوتے جس میں بظاہر قتل نفس اور قطع رحم ہے۔