Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
2. Chapter: Chapter. No Salat (prayer) Is Accepted Without Ablution (i.e, To Remove, The Small Hadith By Ablution Or The Big Hadith By Taking A Bath)
باب:اس بارے میں کہ نماز بغیر پاکی کے قبول ہی نہیں ہوتی
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Chapter. No Salat (prayer) Is Accepted Without Ablution (i.e, To Remove, The Small Hadith By Ablution Or The Big Hadith By Taking A Bath))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
138.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کا وضو ٹوٹ جائے (اسے حدث ہو جائے) اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک وضو نہ کرے۔‘‘ ایک حضرمی نے پوچھا: اے ابوہریرہ! حدث کیا ہے؟ انہوں نے کہا: فساء یا ضراط (یعنی وہ ہوا جو پاخانے کے مقام سے خارج ہو)۔
تشریح:
1۔ امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے اس کے بغیر کوئی نماز درست نہ ہوگی۔ خواہ نماز فرض ہو یا نفل یا نماز جنازہ، دوران اقامت میں ادا کی جائے یا اثنائے سفر میں اگر طہارت نہیں تو قبولیت کا ادنیٰ درجہ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ ادنیٰ ٰدرجے سے مراد یہ ہے کہ فرض ادا ہو جائے خواہ ثواب ملے یا نہ ملے۔ اگر طہارت کے ساتھ نماز شروع کی تھی پھر دوران نماز وضو ٹوٹ گیا تو بھی ناقابل قبول ہے گویا نماز کا کوئی حصہ بھی طہارت کے بغیر درست نہیں۔ بعض لوگ بنا کے قائل ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ جہاں سے نماز ٹوٹی تھی وضو کر کے وہیں سے نماز پڑھ کر نماز پوری کر لے، لیکن اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔ ایک ضعیف حدیث اس مسئلہ بنا کی بنیاد ہے جب کہ ضعیف حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ 2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب دوران نماز میں حدث پیش آنے سے متعلق ہے کہ اس سے مراد فساء، یعنی ریح کا بغیر آواز کے خارج ہونا، یا ضراط، یعنی ریح کا آواز کے ساتھ خارج ہونا ہے۔ کیونکہ دوران نماز میں عام طور پر خروج ریح کی صورت ہی پیش آتی ہے بصورت دیگر نواقض وضو تو اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الحیل (6954) میں بھی بیان کیا ہے۔ وہاں حیلہ گری کی تردید مقصود ہے لیکن وہاں کسی حیلے کی وضاحت نہیں کی جس پر اس حدیث کا انطباق ہوتا ہو۔ بخاری کے شارح ابن بطال نے اس کی تشریح بایں الفاظ کی ہے کہ اس سے ان حضرات کی تردید مقصود ہے جنھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آخری تشہد میں ہوا نکلنے کا اندیشہ ہو تو سلام پھیرنے کے بجائے اگر قصداً ہوا خارج کردی جائے تو نماز صحیح ہے یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ نماز کی تکمیل سلام ہی سے ہوتی ہے اور بزور ہوا کا خارج کرنا یا ہونا کسی صورت میں سلام کا بدل نہیں ہو سکتا لہٰذا ایسی نماز باطل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ اس قسم کی حیلہ گری اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔ (شرح البخاري لإبن بطال: 312/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
137
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
135
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
135
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
135
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
یہ عنوان بجائے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بروایت حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کیا ہے(جامع الترمذی الطہارۃ حدیث:1۔) لیکن یہ روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرائط صحت کے مطابق نہ تھی اس لیے اسئے عنوان میں ذکر کر دیا اصل کتاب کا حصہ نہیں بنایا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کا وضو ٹوٹ جائے (اسے حدث ہو جائے) اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک وضو نہ کرے۔‘‘ ایک حضرمی نے پوچھا: اے ابوہریرہ! حدث کیا ہے؟ انہوں نے کہا: فساء یا ضراط (یعنی وہ ہوا جو پاخانے کے مقام سے خارج ہو)۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے اس کے بغیر کوئی نماز درست نہ ہوگی۔ خواہ نماز فرض ہو یا نفل یا نماز جنازہ، دوران اقامت میں ادا کی جائے یا اثنائے سفر میں اگر طہارت نہیں تو قبولیت کا ادنیٰ درجہ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ ادنیٰ ٰدرجے سے مراد یہ ہے کہ فرض ادا ہو جائے خواہ ثواب ملے یا نہ ملے۔ اگر طہارت کے ساتھ نماز شروع کی تھی پھر دوران نماز وضو ٹوٹ گیا تو بھی ناقابل قبول ہے گویا نماز کا کوئی حصہ بھی طہارت کے بغیر درست نہیں۔ بعض لوگ بنا کے قائل ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ جہاں سے نماز ٹوٹی تھی وضو کر کے وہیں سے نماز پڑھ کر نماز پوری کر لے، لیکن اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔ ایک ضعیف حدیث اس مسئلہ بنا کی بنیاد ہے جب کہ ضعیف حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ 2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب دوران نماز میں حدث پیش آنے سے متعلق ہے کہ اس سے مراد فساء، یعنی ریح کا بغیر آواز کے خارج ہونا، یا ضراط، یعنی ریح کا آواز کے ساتھ خارج ہونا ہے۔ کیونکہ دوران نماز میں عام طور پر خروج ریح کی صورت ہی پیش آتی ہے بصورت دیگر نواقض وضو تو اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الحیل (6954) میں بھی بیان کیا ہے۔ وہاں حیلہ گری کی تردید مقصود ہے لیکن وہاں کسی حیلے کی وضاحت نہیں کی جس پر اس حدیث کا انطباق ہوتا ہو۔ بخاری کے شارح ابن بطال نے اس کی تشریح بایں الفاظ کی ہے کہ اس سے ان حضرات کی تردید مقصود ہے جنھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آخری تشہد میں ہوا نکلنے کا اندیشہ ہو تو سلام پھیرنے کے بجائے اگر قصداً ہوا خارج کردی جائے تو نماز صحیح ہے یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ نماز کی تکمیل سلام ہی سے ہوتی ہے اور بزور ہوا کا خارج کرنا یا ہونا کسی صورت میں سلام کا بدل نہیں ہو سکتا لہٰذا ایسی نماز باطل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ اس قسم کی حیلہ گری اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔ (شرح البخاري لإبن بطال: 312/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم الحنظلی نے بیان کیا۔ انھیں عبدالرزاق نے خبر دی، انھیں معمر نے ہمام بن منبہ کے واسطے سے بتلایا کہ انھوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ (دوبارہ) وضو نہ کر لے۔ حضرموت کے ایک شخص نے پوچھا کہ حدث ہونا کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (پاخانہ کے مقام سے نکلنے والی) آواز یا بے آواز والی ہوا۔
حدیث حاشیہ:
فساء ہوا کو کہتے ہیں جو ہلکی آواز سے آدمی کے مقعد سے نکلتی ہے اور ضراط وہ ہوا جس میں آواز ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The prayer of a person who does, Hadath (passes, urine, stool or wind) is not accepted till he performs (repeats) the ablution." A person from Hadaramout asked Abu Hurairah (RA) , "What is 'Hadath'?" Abu Hurairah (RA) replied, " 'Hadath' means the passing of wind from the anus."