تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو یمن بھیجا تھا۔ حضرت معاذ ؓ وہاں کے قاضی تھے اور ان کی اضافی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے متعین کردہ عمال سے صدقہ و خیرات وصول کریں۔ آپ نے یمن میں پانچ آدمی بطور تحصیل دار مقرر کیے تھے۔ صنعاء کا علاقہ حضرت خالد بن سعید ؓ کے حوالے تھا اور مہاجر بن ابی امیہ ؓ کندہ پر تعینات تھے۔ حضر موت پر زیاد بن لبید ؓ کی ذمہ داری تھی اور جندل پر حضرت معاذ ؓ کو مقرر کیا تھا جبکہ زبید، عدن اور ساحل کا علاقہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی زیر نگرانی تھا۔ (عمدةالقاري:323/6) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وجوب زکاۃ کے لیے پیش کیا ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال کا صدقہ بھی فرض کیا ہے۔ اس حدیث میں زکاۃ پر لفظ صدقہ کا اطلاق کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ صدقات تو فقراء اور مساکین کے لیے ہے۔ (التوبة60:9) صدقات سے مراد مالِ زکاۃ ہے۔ بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس سے انکار کفر ہے۔