Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The (dead) children of Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1396.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ سے اولاد مشرکین کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ نے انھیں پیداکیا تھا تو وہ خوب جانتاتھا کہ وہ کیسے عمل کریں گے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1344
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1383
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1383
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1383
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
مشرکین کے بچوں کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے جس کی تفصیل یہ ہے: ٭ ان کے متعلق توقف کیا جائے جو اللہ کی مشیت میں ہو گا وہ ہو کر رہے گا۔ ٭ وہ اپنے والدین کے تابع ہوں گے، یعنی انہیں جہنم رسید ہونا ہے۔ ٭ انہیں برزخ میں رکھا جائے گا، یعنی نہ جنت میں اور نہ جہنم میں۔ ٭ وہ اہل جنت کے خدام ہوں گے، ان کا کام خدمت گزاری ہو گا۔ ٭ انہیں مٹی بنا کر ختم کر دیا جائے گا۔ ٭ ان کا امتحان لیا جائے گا۔ ٭ انہیں معصوم ہونے کی وجہ سے جنت میں بھیجا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان توقف کے بعد ان کے جنتی ہونے کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ سے اولاد مشرکین کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ نے انھیں پیداکیا تھا تو وہ خوب جانتاتھا کہ وہ کیسے عمل کریں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں ابوبشر جعفر نے‘ انہیں سعید بن جبیرنے‘ ان کو ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ سے مشرکوں کے نابالع بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں پیدا کیا تھا اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا عمل کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے علم کے موافق سلوک کرے گا۔ بظاہر یہ حدیث اس مذہب کی تائید کرتی ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں توقف کرنا چاہیے۔ امام احمد اور اسحاق اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور بیہقی نے امام شافعی سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔ اصولاً بھی یہ کہ نابالغ بچے شرعاً غیر مکلف ہیں، پھر بھی اس بحث کا عمدہ حل یہی ہے کہ وہ اللہ کے حوالہ ہیں جو خوب جانتا ہے کہ وہ جنت کے لائق ہیں یا دوزخ کے۔ مومنین کی اولاد تو بہشتی ہے، لیکن کافروں کی اولاد میں جو نابالغی کی حالت میں مرجائیں بہت اختلاف ہے۔ امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ وہ بہشتی ہیں، کیونکہ بغیر گناہ کے عذاب نہیں ہوسکتا اور وہ معصوم مرے ہیں۔ بعضوں نے کہا اللہ کو اختیار ہے اور اس کی مشیت پر موقوف ہے چاہے بہشت میں لے جائے‘ چاہے دوزخ میں۔ بعضوں نے کہا اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی دوزخ میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا خاک ہوجائیں گے۔ بعضوں نے کہا اعراف میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا ان کاامتحان کیا جائے گا۔ واللہ أعلم بالصواب(وحیدي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was asked about the children of (Mushrikeen) pagans. The Prophet (ﷺ) replied, "Since Allah created them, He knows what sort of deeds they would have done."