Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The (dead) children of Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1397.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’‘اللہ ہی بہترجاننے والا ہے جو عمل وہ کرنے والے ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) اس عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اولادِ مشرکین کے متعلق پہلے متوقف تھے، اس کے بعد آپ نے ان کے نجات یافتہ ہونے پر جزم کیا ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق ان سے برتاؤ کرے گا۔ امام احمد اور اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ جب یہ بچے شرعا غیر مکلف ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کیا جائے، کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ جنت کے لائق ہیں یا دوزخ کے قابل۔ اگر اس کے علم میں ہے کہ وہ بڑے ہو کر اچھے کام کرنے والے تھے تو جنت میں جائیں گے بصورت دیگر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ (2) قدریہ (ایک گمراہ فرقہ) کہتے ہیں کہ اس حدیث میں نجات یا عدم نجات کا دارومدار عمل کو بتایا گیا ہے اور بچے فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں تو جب انہوں نے شرک کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو لامحالہ نجات کے حق دار ہوں گے، لیکن یہ تاویل درست نہیں، کیونکہ فطرت پر پیدا ہونے کے بعد اگر انہیں زندگی دی جاتی تو وہ کیا کرتے؟ اللہ تعالیٰ ان کی اس ممکنہ زندگی کے متعلق اپنے علم کی بنا پر فیصلہ کرے گا اور وہ اس سے خوب آگاہ ہے۔ گویا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کی آئندہ ممکنہ زندگی اور اس کے اعمال کا بھی علم ہے جو ابھی تک اس سے سرزد نہیں ہوئے۔ (3) حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن اہل فترت اور دیوانے لوگوں کا امتحان لیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم خود کو جہنم میں ڈالو۔ جو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے جہنم میں کود پڑے گا، اس کے لیے وہ جہنم گل و گلزار بن جائے گی اور جو جہنم میں چھلانگ لگانے سے انکار کر دے گا اسے دوزخ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ (فتح الباري:313/3) ممکن ہے کہ میدان محشر میں بچوں کے لیے بھی کوئی امتحان عمل تجویز ہو جس پر ان کی نجات و ہلاکت کا دارومدار ہو۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1345
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1384
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1384
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1384
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
مشرکین کے بچوں کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے جس کی تفصیل یہ ہے: ٭ ان کے متعلق توقف کیا جائے جو اللہ کی مشیت میں ہو گا وہ ہو کر رہے گا۔ ٭ وہ اپنے والدین کے تابع ہوں گے، یعنی انہیں جہنم رسید ہونا ہے۔ ٭ انہیں برزخ میں رکھا جائے گا، یعنی نہ جنت میں اور نہ جہنم میں۔ ٭ وہ اہل جنت کے خدام ہوں گے، ان کا کام خدمت گزاری ہو گا۔ ٭ انہیں مٹی بنا کر ختم کر دیا جائے گا۔ ٭ ان کا امتحان لیا جائے گا۔ ٭ انہیں معصوم ہونے کی وجہ سے جنت میں بھیجا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان توقف کے بعد ان کے جنتی ہونے کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’‘اللہ ہی بہترجاننے والا ہے جو عمل وہ کرنے والے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اولادِ مشرکین کے متعلق پہلے متوقف تھے، اس کے بعد آپ نے ان کے نجات یافتہ ہونے پر جزم کیا ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق ان سے برتاؤ کرے گا۔ امام احمد اور اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ جب یہ بچے شرعا غیر مکلف ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کیا جائے، کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ جنت کے لائق ہیں یا دوزخ کے قابل۔ اگر اس کے علم میں ہے کہ وہ بڑے ہو کر اچھے کام کرنے والے تھے تو جنت میں جائیں گے بصورت دیگر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ (2) قدریہ (ایک گمراہ فرقہ) کہتے ہیں کہ اس حدیث میں نجات یا عدم نجات کا دارومدار عمل کو بتایا گیا ہے اور بچے فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں تو جب انہوں نے شرک کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو لامحالہ نجات کے حق دار ہوں گے، لیکن یہ تاویل درست نہیں، کیونکہ فطرت پر پیدا ہونے کے بعد اگر انہیں زندگی دی جاتی تو وہ کیا کرتے؟ اللہ تعالیٰ ان کی اس ممکنہ زندگی کے متعلق اپنے علم کی بنا پر فیصلہ کرے گا اور وہ اس سے خوب آگاہ ہے۔ گویا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کی آئندہ ممکنہ زندگی اور اس کے اعمال کا بھی علم ہے جو ابھی تک اس سے سرزد نہیں ہوئے۔ (3) حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن اہل فترت اور دیوانے لوگوں کا امتحان لیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم خود کو جہنم میں ڈالو۔ جو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے جہنم میں کود پڑے گا، اس کے لیے وہ جہنم گل و گلزار بن جائے گی اور جو جہنم میں چھلانگ لگانے سے انکار کر دے گا اسے دوزخ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ (فتح الباري:313/3) ممکن ہے کہ میدان محشر میں بچوں کے لیے بھی کوئی امتحان عمل تجویز ہو جس پر ان کی نجات و ہلاکت کا دارومدار ہو۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عطاءبن یزیدلیثی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کے نابالغ بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے جو بھی وہ عمل کرنے والے ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
اگر اس کے علم میں یہ ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھے کام کرنے والے تھے تو بہشت میں جائیں گے ورنہ دوزخ میں۔ بظاہر یہ حدیث مشکل ہے، کیونکہ اس کے علم میں جو ہوتاہے وہ ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ تو اس کے علم میں تو یہی تھا کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ قطعی بات تو یہی تھی کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے اور پروردگار کو اس کا علم بے شک تھا، مگر اس کے ساتھ پروردگار یہ بھی جانتا تھا کہ اگر یہ زندہ رہتے تو نیک بخت ہوتے یا بدبخت ہوتے۔ والعلم عنداللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) was asked about the offspring of pagans (Mushrakeen); so he said, "Allah knows what sort of deeds they would have done."