تشریح:
(1) یہ حدیث واضح طور پر فرضیت زکاۃ پر دلالت کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو زندگی ہی میں جنتی قرار دیا ہے۔ شاید رسول اللہ ﷺ کو اس کے متعلق بذریعہ وحی مطلع کر دیا گیا تھا یا اس میں کچھ عبارت محذوف ہے کہ اگر مامورات کو بجا لانے میں پابندی کرتا رہا تو ضرور جنت میں جائے گا۔ اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر ان کاموں کو پابندی سے ادا کرتا رہا تو ضرور جنت میں داخل ہو گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:106(13)) (2) علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے نوافل کو چھوڑ دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن جو شخص ہمیشہ سنن و نوافل کو چھوڑنے کا عادی ہو گا اس کے دین میں ضرور نقص ہو گا۔ اگر سستی یا بے رغبتی کی وجہ سے انہیں چھوڑتا ہے تو فسق کی علامت ہے، اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص میری سنت سے روگردانی کرتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5063) (3) صدر اول میں صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں کی طرح پابندی کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے لیے وہ لوگ فرائض اور سنن میں فرق نہیں کرتے تھے۔ (فتح الباري:336/3) (4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابو زرعہ کے حوالے سے ایک سند بیان کی ہے۔ یہ مرسل روایت ہے، کیونکہ ابو زرعہ تابعی ہیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اس روایت کو نہیں سنا، اس سے پہلے جو وہیب کی روایت ہے وہ موصول ہے، تاہم وہیب کی سند میں یحییٰ بن سعید ابو زرعہ سے عن کے ساتھ بیان کرتے ہیں جبکہ دوسری سند میں أخبرني کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس سے عدم سماع کا احتمال رفع کرنا مقصود ہے۔ والله أعلم۔