Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The (dead) children of Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1398.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ہر بچے کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، جیسا کہ حیوانات کے بچے صحیح وسلامت پیداہوتے ہیں، کیا تم نے (پیدائشی طور پر) ان کے جسم کا کوئی حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے؟‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین کی تعلیم و تربیت اور سوسائٹی کا اثرورسوخ بچے کی فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے تو بچہ دین اسلام کا پیروکار اور اس کے احکام پر کاربند ہو گا، جیسا کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کی محبت پر پیدا ہوتا ہے اور اسے اس محبت سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ فطرت کو دودھ سے تشبیہ دی گئی ہے، بلکہ خواب میں بھی اس کی یہی تعبیر کی جاتی ہے۔ (2) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بچہ دین کا علم حاصل کر کے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَاللَّـهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٧٨﴾) (النحل78:16) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حالت میں برآمد کیا ہے کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اور اس نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنا دیے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ ہر بچہ دین اسلام سے محبت، اس کی معرفت اور اقرار ربوبیت پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ خالی الذہن رہے اور اس کے معارض کوئی چیز اس کے سامنے نہ آئے تو وہ اقرار و محبت سے نہیں ہٹ سکے گا۔ (3) امام بخاری ؒ کے نزدیک فطرت سے مراد اسلام ہے جیسا کہ انہوں نے سورہ روم کی تفسیر میں اس کی صراحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، قبل الحدیث:4775) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اپنا مسلک ثابت کیا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ بچپن میں مر جائے تو فطرت اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر موت آئے تو وہ جنتی ہو گا۔ اسلام میں توحید کو ایک رکن اعظم کی حیثیت حاصل ہے، ہر بچے کے دل میں اللہ کی معرفت اور توحید کی قابلیت ہوتی ہے، اگر اسے بری صحبت میسر نہ آئے تو موحد ہو گا، اس لیے بچے جنتی ہیں، خواہ مشرکین ہی کے کیوں نہ ہوں۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1346
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1385
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1385
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1385
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
مشرکین کے بچوں کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے جس کی تفصیل یہ ہے: ٭ ان کے متعلق توقف کیا جائے جو اللہ کی مشیت میں ہو گا وہ ہو کر رہے گا۔ ٭ وہ اپنے والدین کے تابع ہوں گے، یعنی انہیں جہنم رسید ہونا ہے۔ ٭ انہیں برزخ میں رکھا جائے گا، یعنی نہ جنت میں اور نہ جہنم میں۔ ٭ وہ اہل جنت کے خدام ہوں گے، ان کا کام خدمت گزاری ہو گا۔ ٭ انہیں مٹی بنا کر ختم کر دیا جائے گا۔ ٭ ان کا امتحان لیا جائے گا۔ ٭ انہیں معصوم ہونے کی وجہ سے جنت میں بھیجا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان توقف کے بعد ان کے جنتی ہونے کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ہر بچے کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، جیسا کہ حیوانات کے بچے صحیح وسلامت پیداہوتے ہیں، کیا تم نے (پیدائشی طور پر) ان کے جسم کا کوئی حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین کی تعلیم و تربیت اور سوسائٹی کا اثرورسوخ بچے کی فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے تو بچہ دین اسلام کا پیروکار اور اس کے احکام پر کاربند ہو گا، جیسا کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کی محبت پر پیدا ہوتا ہے اور اسے اس محبت سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ فطرت کو دودھ سے تشبیہ دی گئی ہے، بلکہ خواب میں بھی اس کی یہی تعبیر کی جاتی ہے۔ (2) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بچہ دین کا علم حاصل کر کے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَاللَّـهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٧٨﴾) (النحل78:16) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حالت میں برآمد کیا ہے کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اور اس نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنا دیے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ ہر بچہ دین اسلام سے محبت، اس کی معرفت اور اقرار ربوبیت پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ خالی الذہن رہے اور اس کے معارض کوئی چیز اس کے سامنے نہ آئے تو وہ اقرار و محبت سے نہیں ہٹ سکے گا۔ (3) امام بخاری ؒ کے نزدیک فطرت سے مراد اسلام ہے جیسا کہ انہوں نے سورہ روم کی تفسیر میں اس کی صراحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، قبل الحدیث:4775) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اپنا مسلک ثابت کیا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ بچپن میں مر جائے تو فطرت اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر موت آئے تو وہ جنتی ہو گا۔ اسلام میں توحید کو ایک رکن اعظم کی حیثیت حاصل ہے، ہر بچے کے دل میں اللہ کی معرفت اور توحید کی قابلیت ہوتی ہے، اگر اسے بری صحبت میسر نہ آئے تو موحد ہو گا، اس لیے بچے جنتی ہیں، خواہ مشرکین ہی کے کیوں نہ ہوں۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ذئب نے‘ ان سے زہری نے‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے ( پیدائشی طورپر ) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مگر بعد میں لوگ ان کے کان وغیرہ کاٹ کر ان کو عیب دار کردیتے ہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری نے اپنا مذہب ثابت کیا کہ جب ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ بچپن ہی میں مرجائے تو اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر مراتو بہشتی ہوگا۔ اسلام میں سب سے بڑا جزو توحید ہے تو ہر بچہ کے دل میں خدا کی معرفت اور اس کی توحید کی قابلیت ہوتی ہے۔ اگر بری صحبت میں نہ رہے تو ضرور وہ موحد ہوں، لیکن مشرک ماں باپ، عزیز واقرباء اس فطرت سے اس کا دل پھرا کر شرک میں پھنسا دیتے ہیں۔ (وحیدي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Every child is born with a true faith of Islam (i.e. to worship none but Allah Alone) and his parents convert him to Judaism or Christianity or Magianism, as an animal delivers a perfect baby animal. Do you find it mutilated?"