تشریح:
1۔دیگر عناوین کے برعکس اس عنوان میں ادباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مقدم فرمایا ہے، نیز ایمانیات کے معاملے میں آپ کی محبت اصل الاصول کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ جس مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی وہی دیگر احکام کی تعمیل کرسکے گا، اور اسی محبت رسول ہی سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ اگر یہ محبت موجود ہے تو ایمان ہے بصورت دیگر ایمان سے وہ محروم ہے۔ اس سے ایمان کی کمی بیشی پر بھی روشنی پڑتی ہے کیونکہ محبت ایک ایسا عمل ہے جس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔2۔ محبت کی دوقسمیں ہیں: ایک طبعی جو غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اس قسم کی محبت معیار ایمان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا خواجہ ابوطالب کو آپ سے طبعی محبت تھی لیکن اس کے باوجود انھیں مسلمان شمار نہیں کیاجاتا۔ دوسری محبت شرعی اور عقلی ہے جس میں انسان اپنے ارادے اور اختیار کو استعمال کرتا ہے ایمان کا مدار اسی شرعی محبت پر ہے۔ اوریہ حقیقت ہے کہ جب کسی سے شرعی محبت ہوتی ہے تو محبت طبعی بھی آجاتی ہے، البتہ محبت شرعی کا تقاضا ہے کہ ٹکراؤ کی صورت میں شرعی محبت غالب آنی چاہیے۔
3۔ اس حدیث میں اپنے نفس کی محبت کا ذکر نہیں کیونکہ یہاں ذکر باعتبار ظہور کے ہے اور اپنے نفس سے محبت کا ظہور نہیں ہوتا، پھر دوسری روایت میں تمام لوگوں کی محبت کا ذکر ہے، اس کے عموم میں اپنا نفس بھی شامل ہے، نیز حدیث میں نفس کی محبت کا تذکرہ موجود ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ کی محبت میرے دل میں ہر چیز سے زیادہ ہے مگر میں اپنے نفس کی محبت اور بھی زیادہ پارہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’عمر! ابھی کمی باقی ہے۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غور کیا، پھر عرض کرنے لگے کہ اب آپ کی محبت میرے دل میں میرے نفس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: (الْآنَ يَا عُمَرُ) یعنی اب ایمان کی تکمیل ہوئی ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث: 6632)
4۔ اس روایت میں والد کو ولد پر اس لیے مقدم کیا گیا ہے کہ وہ اصل ہونے کی بنا پر قابل تعظیم ہے اور تعظیم کا تقاضا ہے کہ اسے ذکر میں مقدم کیا جائے۔ پھر ہر شخص کے لیے والد کا ہونا توضروری ہے لیکن اس کے لیے اولاد کا ہونا ضروری نہیں، پھر باپ کی محبت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مناسبت بھی زیادہ ہے کیونکہ آپ بمنزلہ والد کے ہیں۔ بعض روایات میں ولد کو والد پر مقدم رکھا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 169(44))۔ یہ رحمت والفت کے اعتبارسے ہے کہ انسان کو شفقت ورحمت اولاد پر زیادہ ہوتی ہے۔5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی سنت کی تائید ونصرت، اس کا دفاع اور منکرین سنت کا مقابلہ کیا جائے۔ آپ کے لائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔ اس کے لیے وقت، صلاحیت اور مال وغیرہ خرچ کیا جائے، حقیقی ایمان انھی باتوں سے مکمل ہوگا۔ اس سلسلے میں جو چیز بھی رکاوٹ بنے، اسے قربان کردیا جائے۔ اگرمومن اپنے اندر اس معیار کو محسوس کرتا ہے تو حقیقی مومن ہے، بصورت دیگر اسے ا پنے ایمان کے متعلق غوروفکر کرنا چاہیے۔ (شرح الکرماني: 99/1) واللہ المستعان۔