Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
4. Chapter: One should not repeat ablution if in doubt unless and until he is convinced (that he has lost his ablution by having Hadath)
باب:اس بارے میں کہ جب تک ٹوٹنے کا پورایقین نہ ہومحض شک کی وجہ سےنیا وضو نہ کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: One should not repeat ablution if in doubt unless and until he is convinced (that he has lost his ablution by having Hadath))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
140.
حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا حال بیان کیا جسے یہ خیال ہو جاتا تھا کہ وہ دوران نماز میں کسی چیز (ہوا نکلنے) کو محسوس کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ نماز سے اس وقت تک نہ پھرے جب تک ہوا نکلنے کی آواز یا بو نہ پائے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک اصل کوثابت کرتے ہیں کہ جب کوئی عمل یقین و اعتماد سے شروع کیا گیا ہو تو جب تک اس کی جانب مخالف میں بھی یقین کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے، اس وقت تک وہ عمل قائم رکھا جائے گا، صرف تردد اور شک سے اس عمل میں نقصان نہیں آنا چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک خاص واقعے کا حوالہ دیا ہے کہ ایک شخص کو دوران نماز میں وضو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کو اس وقت تک نماز پڑھتے رہنا چاہیے جب تک اسے نقض وضو کے متعلق اس درجے کا یقین نہ ہو جس درجے کا یقین وضو کے متعلق تھا کیونکہ صرف وسوسے اور شبہے کی وجہ سے نماز ختم کرنا درست نہیں۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ جب شیطان دل میں اس طرح کا وسوسہ ڈالے تودل ہی دل میں شیطان کے اس وسوسے کی تکذیب کردے۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اگر ناک سے اس کی بدبو محسوس کرے یا کان سے اس کی آواز سنے تو نماز کوختم کردے۔ (عمدة القاري: 358/2) 2۔ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے وضو ہونے کا حکم صرف اس بات پر موقوف نہیں کہ وہ اس کی آواز سنے یا بدبو پائے کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہوا کے خروج کا یقین ہوتا ہے لیکن نہ اس کی آواز سنی جاتی ہے اور نہ اس کی بو ہی کا احساس ہوتا ہے، مثلاً: ایک آدمی بہرا ہے یا مرض زکام کی وجہ سے اس کی قوت شامہ مفلوج ہوچکی ہے جس کی بنا پر وہ آواز یا بو کا احساس نہیں کر پاتا، ایسی صورت میں اسے وضو کرنا ہوگا کیونکہ اسے بے وضو ہونے کایقین ہوچکا ہے۔ (عمدة القاري: 359/2) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:(باب من لم ير الوساوس ونحوها من الشبهات) ’’وساوس کو شبہات کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، باب: 5) لہٰذا اس حدیث سے یہ قاعدہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی یقینی معاملہ صرف شک کی وجہ سے مشکوک نہیں ہوتا اور نہ معاملات کو وساوس کی وجہ سے شبہات ہی میں تبدیل کرنا درست ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیزکو بلاوجہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
139
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
137
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
137
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
137
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا حال بیان کیا جسے یہ خیال ہو جاتا تھا کہ وہ دوران نماز میں کسی چیز (ہوا نکلنے) کو محسوس کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ نماز سے اس وقت تک نہ پھرے جب تک ہوا نکلنے کی آواز یا بو نہ پائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک اصل کوثابت کرتے ہیں کہ جب کوئی عمل یقین و اعتماد سے شروع کیا گیا ہو تو جب تک اس کی جانب مخالف میں بھی یقین کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے، اس وقت تک وہ عمل قائم رکھا جائے گا، صرف تردد اور شک سے اس عمل میں نقصان نہیں آنا چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک خاص واقعے کا حوالہ دیا ہے کہ ایک شخص کو دوران نماز میں وضو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کو اس وقت تک نماز پڑھتے رہنا چاہیے جب تک اسے نقض وضو کے متعلق اس درجے کا یقین نہ ہو جس درجے کا یقین وضو کے متعلق تھا کیونکہ صرف وسوسے اور شبہے کی وجہ سے نماز ختم کرنا درست نہیں۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ جب شیطان دل میں اس طرح کا وسوسہ ڈالے تودل ہی دل میں شیطان کے اس وسوسے کی تکذیب کردے۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اگر ناک سے اس کی بدبو محسوس کرے یا کان سے اس کی آواز سنے تو نماز کوختم کردے۔ (عمدة القاري: 358/2) 2۔ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے وضو ہونے کا حکم صرف اس بات پر موقوف نہیں کہ وہ اس کی آواز سنے یا بدبو پائے کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہوا کے خروج کا یقین ہوتا ہے لیکن نہ اس کی آواز سنی جاتی ہے اور نہ اس کی بو ہی کا احساس ہوتا ہے، مثلاً: ایک آدمی بہرا ہے یا مرض زکام کی وجہ سے اس کی قوت شامہ مفلوج ہوچکی ہے جس کی بنا پر وہ آواز یا بو کا احساس نہیں کر پاتا، ایسی صورت میں اسے وضو کرنا ہوگا کیونکہ اسے بے وضو ہونے کایقین ہوچکا ہے۔ (عمدة القاري: 359/2) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:(باب من لم ير الوساوس ونحوها من الشبهات) ’’وساوس کو شبہات کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، باب: 5) لہٰذا اس حدیث سے یہ قاعدہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی یقینی معاملہ صرف شک کی وجہ سے مشکوک نہیں ہوتا اور نہ معاملات کو وساوس کی وجہ سے شبہات ہی میں تبدیل کرنا درست ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیزکو بلاوجہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے زہری نے سعید بن المسیب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبادہ بن تمیم سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے چچا (عبداللہ بن زید) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول کریم ﷺ سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا نکلتی) معلوم ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے۔
حدیث حاشیہ:
اگر نماز پڑھتے ہوئے ہوا خارج ہونے کا شک ہو تومحض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جب تک ہوا خارج ہونے کی آواز یا اس کی بدبو معلوم نہ کرلے۔ باب کا یہی مقصد ہے۔ یہ حکم عام ہے خواہ نماز کے اندر ہو یانماز کے باہر۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے ایک بڑا قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ کوئی یقینی کام شک کی وجہ سے زائل نہ ہوگا۔ مثلاً ہرفرش یا ہرجگہ یا ہرکپڑا جو پاک صاف اور ستھرا ہو اب اگر کوئی اس کی پاکی میں شک کرے تو وہ شک غلط ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abbas bin Tamim (RA): My uncle asked Allah's Apostle (ﷺ) about a person who imagined to have passed wind during the prayer. Allah' Apostle (ﷺ) replied: "He should not leave his prayers unless he hears sound or smells something."