تشریح:
(1) حضرت ابوذر ؓ کا آیت کنز کے پیش نظر یہ موقف تھا کہ ضروریات سے زیادہ سرمایہ رکھنا شرعا درست نہیں، بلکہ ایسا کنز ہے جس پر قرآن میں وعید آئی ہے، نیز اپنے موقف کی تائید میں اس آیت کو بھی پیش کرتے تھے: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (البقرة: 219:2) ’’اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیں کہ جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ نے آیت کنز کے متعلق فرمایا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا۔ جب زکاۃ فرض ہوئی تو اسے منسوخ کر دیا گیا، یعنی جب فتوحات ہوئیں اور نصاب زکاۃ مقرر ہوا، پھر اس کے مصارف بیان ہوئے تو آیت میں مذکور حکم بھی ختم ہو گیا۔ دراصل حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سننے جس میں سخت حکم ہوتا تھا اور اسے اپنی قوم کو پہنچا دیتے، اس کے بعد اس کے متعلق نرمی آ جاتی، لیکن حضرت ابوذر ؓ پہلے حکم ہی پر عمل پیرا رہتے، جیسا کہ مال جمع کرنے کے متعلق ان کا موقف ہے۔ جمہور صحابہ نے ان سے اختلاف کیا ہے۔ (فتح الباري:345/3) (2) جن آیات کریمہ میں ضرورت سے زیادہ سارا مال خرچ کر دینے کا حکم ہے وہ نفلی صدقات کی آخری حد ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور بعد میں خود محتاج ہو جائے۔ صدقے کی کم از کم حد فرض زکاۃ ہے جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے۔ بالفاظ دیگر زکاۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں، جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔ اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے قرآنی آیت میں العفو کے مفہوم کو بہت غلط معنی پہنائے ہیں۔ اشتراکی نظریے کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق کیا پوچھے گا؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہی آیت اس نظریے کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے، کیونکہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے مالوں کے مالک تھے اور اپنی مرضی ہی سے ان میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ انہوں نے اس وقت سوال کیا تھا جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ دوران سفر میں فرمایا: ’’جس کے پاس زائد سواری ہو وہ دوسرے کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد زادراہ ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے۔‘‘ الغرض آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا اس انداز سے ذکر فرمایا کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں تو اپنے زائد مال میں کوئی حق نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4517(1728)) ایسے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد مال چھین لیے جائیں، بلکہ مسلمانوں کی تربیت اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اختیار و ارادے سے اپنا سارا مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر ہے، لیکن جو مسلمان ایسے حالات میں اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، جبکہ اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کر دیتا ہے، لہذا اس آیت کریمہ سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔