Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: What is forbidden as regards abusing the dead)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1409.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’مردوں کو بُرا بھلا نہ کہو،وہ جو کچھ کرچکے ہیں اس سے ہم آغوش ہوچکے ہیں۔‘‘ اس روایت کو عبداللہ بن عبدالقدوس اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے بیان کیا ہے۔شعبہ سے روایت کرنے میں علی بن جعد،محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے آدم کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے گزرنے والے جنازے کی برائی کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’واجب ہو گئی۔‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ نے دریافت کیا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی برائی کرنے سے اس پر آگ واجب ہو گئی، کیونکہ تم زمین پر اللہ کی طرف سے گواہی دینے والے ہو۔‘‘(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1367) میت کی برائی بیان کرنا اسے گالی دینا نہیں، لہذا مذکورہ حدیث پہلی حدیث کے منافی نہیں۔ (فتح الباري:327/3) میت کو برا بھلا کہنے کی دو قسمیں ہیں: ٭ کافر میت کو اگر برا بھلا کہنے سے کسی زندہ مسلمان کو تکلیف ہوتی ہو تو ایسا کرنا سخت منع ہے۔ ٭ اگر کسی مسلمان کو ضرورت کے پیش نظر برا بھلا کہا جائے تو یہ ایک شہادت ہے جسے ادا کیا جا سکتا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بعض مرنے والوں کو برا بھلا کہا ہے۔ (فتح الباري:328/3) (2) حضرت عائشہ ؓ نے ایک واقعے کے پس منظر میں یہ حدیث بیان کی: حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے موقع پر یزید بن قیس ارجی کے ہاتھ حضرت عائشہ ؓ کے نام ایک خط روانہ کیا جس کا انہوں نے جواب نہ دیا۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ بات پہنچی کہ اس (یزید) نے آپ کے متعلق حرف گیری کی ہے تو آپ نے اس پر لعنت کی۔ جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ مر گیا ہے تو آپ نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ (فتح الباري:328/3) (3) عام حکم تو یہی ہے کہ مردوں کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ اگر کوئی لعین ابو لہب جیسا بدبخت و بدکردار ہو تو اسے برائی سے یاد کرنا جائز ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے خود اس کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1357
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1393
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1393
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1393
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’مردوں کو بُرا بھلا نہ کہو،وہ جو کچھ کرچکے ہیں اس سے ہم آغوش ہوچکے ہیں۔‘‘ اس روایت کو عبداللہ بن عبدالقدوس اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے بیان کیا ہے۔شعبہ سے روایت کرنے میں علی بن جعد،محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے آدم کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے گزرنے والے جنازے کی برائی کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’واجب ہو گئی۔‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ نے دریافت کیا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی برائی کرنے سے اس پر آگ واجب ہو گئی، کیونکہ تم زمین پر اللہ کی طرف سے گواہی دینے والے ہو۔‘‘(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1367) میت کی برائی بیان کرنا اسے گالی دینا نہیں، لہذا مذکورہ حدیث پہلی حدیث کے منافی نہیں۔ (فتح الباري:327/3) میت کو برا بھلا کہنے کی دو قسمیں ہیں: ٭ کافر میت کو اگر برا بھلا کہنے سے کسی زندہ مسلمان کو تکلیف ہوتی ہو تو ایسا کرنا سخت منع ہے۔ ٭ اگر کسی مسلمان کو ضرورت کے پیش نظر برا بھلا کہا جائے تو یہ ایک شہادت ہے جسے ادا کیا جا سکتا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بعض مرنے والوں کو برا بھلا کہا ہے۔ (فتح الباري:328/3) (2) حضرت عائشہ ؓ نے ایک واقعے کے پس منظر میں یہ حدیث بیان کی: حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے موقع پر یزید بن قیس ارجی کے ہاتھ حضرت عائشہ ؓ کے نام ایک خط روانہ کیا جس کا انہوں نے جواب نہ دیا۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ بات پہنچی کہ اس (یزید) نے آپ کے متعلق حرف گیری کی ہے تو آپ نے اس پر لعنت کی۔ جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ مر گیا ہے تو آپ نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ (فتح الباري:328/3) (3) عام حکم تو یہی ہے کہ مردوں کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ اگر کوئی لعین ابو لہب جیسا بدبخت و بدکردار ہو تو اسے برائی سے یاد کرنا جائز ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے خود اس کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے بیان کیا‘ ان سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا‘ مردوں کو برانہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پالیا۔ اس روایت کی متابعت علی بن جعد‘ محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے شعبہ سے کی ہے۔ اور اس کی روایت عبداللہ بن عبدالقدوس نے اعمش سے اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی مسلمان جو مرجائیں ان کا مرنے کے بعد عیب نہ بیان کرنا چاہیے۔ اب ان کو برا کہنا ان کے عزیزوں کو ایذا دینا ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Don't abuse the dead, because they have reached the result of what they forwarded."