تشریح:
(1) اس حدیث میں لفظ حسد، رشک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ رشک یہ ہے کہ انسان کسی میں اچھی صفت دیکھ کر اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔ اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے تو اسے حسد کہا جاتا ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ (2) امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مطلق طور پر مال جمع کرنا مذموم نہیں بلکہ قابل مذمت وہ جمع شدہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔ مال جمع کرنا اگرچہ جائز ہے، لیکن اسے جمع کرنے والا قیامت کے دن اس کی باز پرس سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ اور جن احادیث میں مال جمع کرنے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حلال ذرائع سے مال جمع کیا جائے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔ (3) زین بن منیر نے کہا ہے کہ اللہ کی راہ میں تمام مال خرچ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو، اگر کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت ہے تو شرعا ایسا کرنا جائز نہیں۔ (فتح الباري:349/3)