تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ جو وضو میں اللہ کا نام نہیں لیتا، اس کا وضو نہیں ہے۔ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 25) چونکہ یہ روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انھوں نے اس کے اثبات کے لیے ایک نئی راہ نکالی جو ان کی دقت نظر اور جلالت قدر کی ایک واضح دلیل ہے، فرماتےہیں کہ تسمیہ (بسم اللہ پڑھنا) تو ہرحال میں مطلوب ہے اور انہی حالات میں ایک حالت جماع بھی ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس وقت اللہ کا نام لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایک تو برہنگی کی صورت ہے، پھر خالص قضاء شہوت کا شغل ہے لیکن شریعت میں اس حالت کے لیے بھی ایک مخصوص دعا منقول ہے۔ جب اس حالت میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو وضوء سے پہلے تو بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیے کیونکہ وضو خود بھی عبادت ہے اور ایک بڑی عبادت کا پیش خیمہ بھی ہے۔
2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور دعا کو بوقت جماع پڑھنا چاہیے۔ بعض طرق میں صراحت ہے کہ جماع کا ارادہ کرتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ (فتح الباري: 318/1) صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا، اگر کوئی عربی زبان میں یہ دعا نہ پڑھ سکتا ہو تو کیا اسے فارسی میں یہ کلمات کہنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا:’’ہاں‘‘۔ (شرح الكرماني: 183/2)
3۔ عام طور پر بیوی سے صحبت کے بعد استنجا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آگے آداب خلا(قضائے حاجت) بیان کیے جا رہے ہیں، جس طرح جماع کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے بچہ شیطانی ضرر سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح بیت الخلا جاتے وقت تسمیہ کا عمل انسان کے پوشیدہ اعضاء کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر دیتا ہے۔ اس سے علامہ کرمانی کااعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ بخاری ابواب قائم کرنے میں حسن ترتیب کی رعایت نہیں کرتے، وہ فن حدیث میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کی کوشش کا محور صرف صحیح احادیث کا جمع کردینا ہے۔ (شرح الکرماني: 183/2)