تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کرنے میں دیر سے کام نہیں لینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ بیماری دبوچ لے یا موت آ جائے، ایسے حالات میں خرچ کرنا چنداں مفید نہیں۔ (2) واضح رہے کہ حرص اور لالچ (شح) کے تین درجے ہیں: ٭ کسی دوسرے کا مال ناحق غصب کرے۔ ٭ زکاۃ ادا نہ کرے بلکہ حرام مال جمع کرنے میں لگا رہے۔ ٭ ضرورت مند ہو اور تندرستی کی حالت میں خرچ کرے۔ اس آخری درجے کی فضیلت امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ (3) ابن بطال نے کہا ہے کہ صحت کی حالت میں مال کی حرص اور اس کے لالچ کا غلبہ ہوتا ہے، لہذا اس حالت میں خرچ کرنا اس کی نیت کے اخلاص اور اجروثواب کے بڑے ہونے کی علامت ہے، لیکن جب اس پر موت کے خطرات منڈلانے شروع ہو جائیں اور اسے یقین ہو جائے کہ اب اس کا مال دوسروں کو خودبخود منتقل ہو جائے گا، ایسے حالات میں خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اللہ کے ہاں اس کا اجروثواب ہی لکھا جاتا ہے۔ (فتح الباري:361/3)