تشریح:
(1) اس حدیث کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدقہ اہل خیر میں سے محتاج لوگوں کے لیے مختص تھا، اسی لیے تو لوگوں نے تعجب کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ کرنے والا مخلص ہو اور اس کی نیت بھی اچھی تھی تو اس کا صدقہ اللہ کے ہاں قبول ہے اگرچہ وہ اپنے محل میں نہ پہنچ سکے۔ حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں کہ وہ صدقہ فرض تھا یا نفل، وہ کافی ہو گا یا نہیں۔ غالبا امام بخاری ؒ نے بھی عنوان میں اسی وجہ سے فیصلہ کن انداز اختیار نہیں کیا بلکہ استفہام کے طور پر اسے بیان کیا ہے۔ ہمارے نزدیک حدیث میں لفظ صدقہ فرض اور نفل دونوں کو شامل ہے۔ ایسے حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیر مستحق کو ملا ہے، تاہم عنداللہ وہ قبول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ناواقفی میں کسی غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ قبول کر لیتا ہے اور دینے والے کو اس سے ثواب ملتا ہے بلکہ ایسے حالات میں کچھ زیادہ ہی اجروثواب کا باعث ہے۔ صدقہ کرنے والے کو دوبارہ صدقہ دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ (2) اس حدیث سے اخلاص اور پوشیدہ طور پر صدقہ دینے کی اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے۔ صدقہ دینے والے نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی، یعنی زانیہ اور چور پر صدقہ کرنے میں میری کوئی تعریف نہیں، کیونکہ ان پر صدقہ کرنا تیری ہی مشیت اور ارادے سے تھا، اگرچہ میرا ارادہ نہ تھا، تاہم جو کچھ ہوا تیری مشیت سے ہوا اور تیرا ہر ارادہ اچھا ہوتا ہے، اس لیے تعریف کا سزاوار بھی تو ہی ہے۔