تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نادانستہ طور پر باپ اپنے محتاج بیٹے کو زکاۃ دے دے تو ادا ہو جائے گی، اسے دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ عزیز و اقارب جو محتاج ہوں انہیں زکاۃ دینا زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔ خیرات فرض ہو یا نفل اپنے خاوند اور دیگر رشتہ داروں کو دینا دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ اگر اپنی اولاد میں سے کسی حقدار کو صدقہ و خیرات دیتا ہے تو اسے رجوع کا حق نہیں، البتہ ہبہ وغیرہ میں باپ کو واپس لینے کا حق بدستور قائم رہتا ہے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ خود دینا ضروری نہیں بلکہ کسی کو اپنی طرف سے وکیل بنانا بھی جائز ہے، کیونکہ اس میں اخفا ہے جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے اور ایسا کرنے سے انسان ریاکاری سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ واللہ أعلم۔