تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں خاوند کی اجازت کا ذکر نہیں کیا، جیسا کہ عنوان سابق میں خادم کے متعلق حکمِ آقا کا ذکر کیا تھا۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوی اور خادم میں کچھ فرق ہے، یعنی بیوی اپنے شوہر کے مال میں براہ راست تصرف کا حق رکھتی ہے۔ عام طور پر گھر سے تھوڑی بہت اشیاء دینے سے خاوند ناراض نہیں ہوتا، لیکن خادم وغیرہ کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا، تاہم بیوی کا شوہر سے عمومی اجازت لینا بہتر ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ بیوی اگر خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ کرتی ہے تو اسے نصف اجر ملتا ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2065) دوسری روایت میں ہے کہ ایسے حالات میں دوسرا نصف خاوند کو ملے گا۔ (صحیح البخاري، النفقات، حدیث:5360) (2) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کے تین طرق بیان کیے ہیں، حدیث شعبہ جو پہلے ذکر کی ہے، اس کا متن مکمل بیان نہیں کیا جسے علامہ اسماعیلی نے بایں الفاظ ذکر کیا ہے: جب عورت اپنے خاوند کے گھر سے خرچ کرتی ہے تو اللہ اس کا اجر لکھ دیتا ہے۔ خاوند اور خازن کو بھی اس کے مثل اجر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے اجر کو کم نہیں کرے گا۔ خاوند کو کمائی اور عورت کو خرچ کرنے کا اجر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ گھر اجاڑنے کا ارادہ نہ کرے۔ (فتح الباري:383/3)