تشریح:
1۔ حدیث میں مذکور صورتوں کو سمجھنے کے لیے حیوانات سے زکاۃ کا نصاب پیش نظر ہونا چاہیے۔ سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بکریوں کا نصاب اور اس سے شرح زکاۃ ذکر کرتے ہیں:٭ 1 تا 39 بکریوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔٭ 40 تا 120 بکریوں میں ایک بکری۔٭ 121 تا 200 بکریوں میں دو بکریاں۔٭201 تا 300 بکریوں میں تین بکریاں۔٭ 301 تا 400 بکریوں میں چار بکریاں۔٭ 401 تا 500 بکریوں میں پانچ بکریاں۔ اس طرح آگے ہر سو کی تعداد پر ایک بکری مزید بطور زکاۃ دینا ہو گی۔ ممنوع صورتیں مالک نصاب اور صدقہ لینے والے کے اعتبار سے چار ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ صدقے سے بچنے یا اسے کم مقدار میں ادا کرنے یا زیادہ لینے کے لیے مال زکاۃ میں جمع و تفریق نہ کی جائے۔ تفصیل حسب ذیل ہے: مالک نصاب کے اعتبار سے صدقہ وصول کرنے والے کے اعتبار سے شراکت کی بنیاد پر دو شخصوں کی پچاس بکریاں ہیں، جن میں ایک بکری بطور زکاۃ دینا پڑتی ہے۔ جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ پچیس، پچیس بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ کسی کو زکاۃ نہ دینا پڑے۔ یا دو آدمیوں کی بطور شراکت دو سو پچاس بکریاں ہیں، ان میں تین بکریاں زکاۃ واجب ہے وہ زکاۃ کے وقت اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ دو بکریاں زکاۃ دی جائے۔ دو حضرات کی الگ الگ چالیس، چالیس بکریاں ہیں۔ نصاب کے اعتبار سے ہر ایک پر ایک ایک بکری زکاۃ واجب ہے۔ جب زکاۃ لینے والا آئے تو انہیں یکجا کر لیا جائے۔ اس صورت میں انہیں ایک ہی بکری دینا پڑے گی۔ دو آدمیوں کی الگ الگ پچیس پچیس بکریاں ہیں۔ ان میں سے کسی پر بھی زکاۃ واجب نہیں لیکن صدقہ لینے والا انہیں یکجا کر کے ان سے ایک بکری وصول کر لے۔ دو آدمیوں کی سو بکریاں ہیں، ان پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے لیکن صدقہ لینے والا انہیں الگ الگ کر دے اس طرح ایک کی پچاس بکریوں پر ایک اور دوسرے کی پچاس پر بھی ایک بکری وصول کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے صدقے سے بچنے یا زیادہ وصول کرنے کے پیش نظر اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ ایک فریب اور ناجائز حیلہ گری ہے۔