تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اونٹوں سے زکاۃ کی مشروعیت بیان کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب انسان اپنے مال سے فریضہ ادا کرتا رہے اور اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ وہ جہاں چاہے رہے اس معاملے میں اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ ایک روایت میں مزید تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی ادائیگی کے بعد اس سے دریافت کیا: ’’تو کسی کو ان اونٹوں میں سے عطیہ وغیرہ دیتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! پھر آپ نے پوچھا: ’’پانی کے چشمے پر ان کا دودھ دوہ کر اسے غرباء میں تقسیم بھی کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تیرے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الھبة وفضلھا، حدیث:2633) (2) اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ہجرت منسوخ ہو چکی تھی بلکہ آپ جانتے تھے کہ یہ دیہاتی ہجرت جیسے کوہ گراں کا متحمل نہیں، اس لیے آپ نے مذکورہ ہدایات دیں۔