تشریح:
(1) ان کمی بیشی والی صورتوں میں بیس درہم یا دو بکریوں میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا دینے والے کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ مالک ہو یا وصول کنندہ۔ لینے والا اپنی مرضی سے کسی ایک کو لینے کا مجاز نہیں۔ اس حدیث کو سمجھنے کے لیے چند ایک اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے۔ ٭ بنت مخاض: ایسی اونٹنی جس کی عمر کا پہلا سال مکمل ہو کر دوسرا شروع ہو چکا ہو اور اس کی ماں حمل کے قابل ہو جائے۔ ٭ ابن لبون: وہ اونٹ جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ ٭ بنت لبون: ایسی اونٹنی جو دو سال پورے کر کے تیسرے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔ ٭ حقہ: وہ اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ ٭ جذعہ: ایسی اونٹنی جو چار سال مکمل کر کے پانچویں سال میں پہنچ چکی ہو۔ (2) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ زکاۃ کے طور پر جو جانور واجب ہو اور وہ میسر ہو تو وہی ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ دستیاب نہ ہو تو اس سے اچھا یا کمتر لیا جا سکتا ہے اور کمی بیشی کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ اگر بطور زکاۃ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دینی ضروری ہو اور وہ اسے دستیاب نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ اس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں جبکہ اس صورت کا بیان ایک دوسری حدیث میں ہوا ہے کہ جس کسی پر صدقے میں یکسالہ اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ اس کے پاس دو سالہ اونٹنی ہو تو وہی قبول کر لی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اگر دو سالہ اونٹنی کے بجائے دو سال کا نر اونٹ اس کے پاس ہو تو وہی قبول کر لیا جائے مگر اس صورت میں صدقہ وصول کرنے والا کوئی چیز واپس نہیں کرے گا۔ (حدیث: 1448) (3) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دستیاب نہ ہونے کی صورت کا حل جب ایک حدیث میں واضح طور پر موجود تھا تو امام بخاری نے ایک ایسی حدیث کا انتخاب کیوں کیا جس میں واضح طور پر اس کا ذکر نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کی بیان کردہ اس حدیث کے مطابق بنت مخاص، بنت لبون، حقہ اور جذعہ کے مابین ایک ایک درجے کا فرق ہے اور ایک درجے کے فرق کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنت مخاض کی عدم موجودگی میں اگر بنت لبون میسر ہو تو بیس درہم یا دو بکریوں، اگر حقہ دستیاب ہو تو چالیس درہم یا چار بکریوں اور اگر جذعہ موجود ہو تو ساٹھ درہم یا چھ بکریوں سے اس کمی بیشی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس نکتہ آفرینی کی بنا پر امام بخاری نے مذکورہ حدیث کا انتخاب کیا ہے۔ (فتح الباري:399/3)