تشریح:
(1) بکری کا وہ بچہ جو چار ماہ کا ہو اور دودھ نہ پیتا ہو بلکہ چارا کھاتا ہو، اگر وہ نر ہے تو اسے جَدی اور اگر مادہ ہے تو اسے "عناق" کہا جاتا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر زکاۃ وصول کرنے والا چاہے تو بکری کا بچہ لے سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی عیب نہیں۔ عیب دار جانور سے یہ کہیں بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان میں إعطاء کے بجائے لفظ أخذ استعمال کیا ہے، یعنی ایسا کرنا صدقہ لینے والے کی صوابدید پر موقوف ہے۔ (فتح الباري:405/3) (3) فقہاء نے اس کی صورت یہ لکھی ہے کہ ایک آدمی کے پاس صرف چالیس چار ماہ کے بچے ہیں اور ان میں زکاۃ واجب ہو تو ان سے ایک بچہ وصول کر لیا جائے گا۔ زکاۃ واجب ہونے کی صورت اس طرح ہے کہ ایک شخص کے پاس دو سو بکریاں تھیں جنہوں نے بچے جنم دیے، کسی آفت کی وجہ سے وہ بکریاں مر گئیں، صرف چار ماہ کے چالیس بچے رہ گئے چونکہ ابتدائے سال سے ان پر زکاۃ واجب ہو چکی تھی کیونکہ ایسی صورت میں ان پر سال گزرنا ضروری نہیں تھا، اس لیے کہ ان کے لیے ماؤں کا حکم ہوتا ہے، لہذا ان سے ایک بچہ وصول کر لیا جائے گا۔ واللہ أعلم